کوپن ہیگن: (ویب ڈیسک) ڈنمارک میں متعارف کرائے گئے نئے قانون کے تحت شہریوں کو پابند کیا گیا ہے کہ انہیں شہریت کے حصول کی دستاویزات پیش کیے جانے کی تقریب میں میئر یا کسی بھی سرکاری عہدے دار سے ہاتھ ملانا ہو گا۔
گزشتہ ماہ پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے قانون نے اس کے مخالفین میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے جو قانون کو مسلمان مرد اور خواتین کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب قانون کے حامی عناصر اسے محض مساوات اور برابری کو یقینی بنانے کا اقدام شمار کر رہے ہیں۔
ڈنمارک میں ہجرت اور انضمام کے امور کی خاتون وزیر انگر اسٹوئیبرگ کا کہنا ہے کہ "اگر یہ لوگ ہم سے ہاتھ نہیں ملائیں گے تو ہم ان افراد کو شہریت پیش نہیں کر سکتے۔ جب یہ لوگ ہاتھ ملا رہے ہوتے ہیں اس وقت انسان ڈنمارک کا شہری ہوتا ہے ،،، اس سے پہلے اور بعد نہیں"۔
اسٹوئیبرگ نے مزید کہا کہ مخالف جنس سے ہاتھ نہ ملانے کی خواہش سمجھ سے بالا تر ہے ، "ہم مساوات کے قائل ہیں اور ہم اسے کئی نسلوں سے یقینی بنا رہے ہیں۔ ہم نے اس واسطے مزاحمت کی ہے اور اب اس کا تحفظ اور اس کے لیے احترام کا اظہار نا گزیر ہے"۔
ڈنمارک میں کنزریٹو پارٹی اور دائیں بازو کی جماعت کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس قانون کو بعض حلقوں نے مسلمانوں کے خلاف شمار کیا ہے۔ مقامی بلدیات کے کئی عہدے داران نے بھی اس کی مخالف کی ہے۔