قاہرہ: (ویب ڈیسک) مصر میں تین ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی حنوط شدہ لاشوں والے ان تابوتوں کی تعداد لگ بھگ 30 بتائی جارہی ہے جو الاقصر میں کھدائی کے دوران ملے جو آج بھی بہت اچھی حالت میں ہیں۔
ماہرین آثار قدیمہ ان تابوتوں کی دریافت کو انتہائی سنسی خیز واقعات میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔ یہ تمام تابوت لکڑی کے بنے ہوئے ہیں اور ان پر مختلف روغنوں سے رنگا رنگ نقس و نگار بھی بنے ہوئے ہیں۔
ان میں سے پہلا تابوت زمین سے صرف ایک میٹر کی گہرائی میں دریافت ہوا اور اس کے بعد جب مزید کھدائی کی گئی تو قریب ہی ایک قطار کی صورت میں وہیں پر مزید انتیس دیگر تابوت بھی رکھے ہوئے ملے۔
العساسیف نامی اس قدیمی قبرستان میں اہم شخصیات کو دفن کیا جاتا تھا۔ یہ تابوت تین ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل دفن کیے گئے تھے۔ مصر میں گزشتہ تقریباﹰ سوا سو سال کے دوران یہ اپنی نوعیت کی عظیم ترین دریافت ہے۔
آثار قدیمہ کے ماہر ڈاکٹر خالد العنانی نے میڈیا کو بتایا کہ مصر میں انیسویں صدی عیسوی کے اختتام کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ ہمیں ازمنہ قدیم کے اور انسانی جسموں کی باقیات والے اتنے زیادہ تابوت اکٹھے ملے ہیں، جو آج بھی حیران کن حد تک اچھی حالت میں ہیں۔ اس سے قبل 1881ء اور 1898ء میں بھی مصر میں الاقصر کے مقام سے ہزاروں سال پرانے ایسے کئی تابوت ملے تھے، جن میں قدیم بادشاہوں کی حنوط شدہ لاشیں بند تھیں۔
ابتدائی جائزوں سے پتا چلا ہے کہ یہ تابوت مذہبی رہنماؤں یا کاہنوں کا کردار ادا کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ ان حنوط شدہ لاشوں کا تعلق فرعونوں کے دور کے 22 ویں حکمران خاندان سے ہے، جس کا اقتدار تین ہزار سال سے بھی پہلے شروع ہو گیا تھا۔
حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اتنا زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود لکڑی کے ان تابوتوں پر سیاہ، سرخ اور زرد رنگوں سے بنے اژدھوں، پرندوں اور طرح طرح کے پھولوں والے نقش و نگار آج بھی واضح طور پر پہچانے جا سکتے ہیں۔