سمندر کے پانی پر اونٹوں کی دوڑ، ہر کوئی حیران

Last Updated On 28 October,2019 10:33 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں اونٹ صحرا کا جہاز کہا جاتا ہے، اس پر سفر کرنے کے لیے دنیا بھر کے سیاحت کے شوقین لوگ دبئی، پاکستان، بھارت سمیت دیگر ممالک کا رُخ کرتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن سعودی عرب سے ایک ایسی حیران کن خبر آئی ہے جس نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے، سعودی عرب میں اونٹوں کی تصویر نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اونٹوں کی بڑی تعداد سمندر میں پانی کے اوپر چل رہے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ’’العربیہ‘‘ کے مطابق سعودی عرب کے دستاویزی فلمساز نے مملکت کے جنوب میں عسیرکے سمندر میں سے اونٹوں کے گزرنے والے قافلے کے مناظر کو کیمرے میں محفوظ کیا ہے۔ سمندر سے گزرتے اونٹوں کی تصاویر اور حیرت انگیز مناظر نے دیکھنے والوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔

عرب خبر رساں ادارے کے فوٹو گرافر کی تصاویر کی سوشل میڈیا پر دھوم ہے اور اونٹوں کی لمبی قطار میں سمندر کے پانی سے گزرنے کی تصویر نے مصور کی فنکارانہ مہارت، سعودی ثقافت اور قدرت کی صناعی اور کاری گری کی عکاسی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پرالاحمری کی اونٹوں کے گزرنے کی تصویر کو قدرت کا حسین شاہکار اور آرٹ کا عمدہ نمونہ قرار دیا جا رہا ہے۔

سعودی دستاویزی فلم ساز نے تصویرکے ذریعے سوشل میڈیا پر مداحوں کی توجہ تصویر کے ذریعے اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس تصویر نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے جنوب میں واقع عسیر کے سمندر میں اونٹوں کے ایک لمبی قطارمیں گزرنے کے منظر نے خود مجھے بھی مبہوت کیا۔ یہ اونٹ ایک ترتیب کےساتھ چل رہے تھے۔ مانجروف نامی ایک درخت کو کھانے کے لیے وہ بہت محتاط انداز میں چلتے تھے کہ کہیں پانی میں گر نہ جائیں۔ بلا شبہ اونٹ خدا کی عظمت کی نشانیوں اور اس کی قدرت کاری گری کی علامت ہے۔

الاحمری نے 9 سال قبل اپنی پیشہ ورانہ فوٹو گرافی کا آغاز کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ عسیر خطہ سیاحت کی ترقی کی طرف گامزن ہے۔ اس علاقے کے قدرتی حسن کو اجاگر کرنے کے لیے دستاویزی فلموں پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے ساحل اور سمندر پر بہت سے دستاویزی کام کیے ہیں۔ ان میں سب سے اہم فلم  کینبل  ہے۔ یہ ایک مشہور جزیرے کی کہانی ہے جسے عسیر کے ساحل پر دستاویز کیا گیا۔ عسیر کے 23 جزیرے ہیں جن میں سے بہت کم دیکھے گئے ہیں۔ میں نے اپنی دستاویزی فلموں میں ان کا تعارف کرایا۔

ایک سوال کے جواب میں عوان الاحمری کا کہنا تھا کہ میرے لیے خاموش تصویر کی کوئی اہمیت نہیں چاہے وہ کتنی خوبصورت کیوں نہ ہو۔ میں ایسی تصاویر کی تلاش میں رہتا ہوں کو اپنے دیکھنےوالوں کو کوئی پیغام دے سکیں، انہیں معلومات فراہم کریں، انہیں غور فکر کی دعوت دیں، ان میں کوئی ثقافتی یا سیاحتی کشش پائی جائے۔

میں ان علاقوں میں سیاحتی فلموں کے لیے مناظر کی تلاش میں رہتا ہوں۔ ان مقامات اور مناظر کی کھوج میں رہتا ہوں جو منظرعام پرنہیں آئے۔عسیر میں ثقافتی تنوع اور کثرت کو دیکھتے ہوئے بہت سے مقامات ابھی دریافت کرنے باقی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غیرملکی سیاحوں کی سہولت کے لیے دستاویزی فلموں میں انگریزی ترجمے کے ذریعے رہ نمائی کی سہولت فراہم کروں گا۔

جہاں تک ان کے دستاویزی کاموں کی بات ہے تو الاحمری نے زور دے کر کہا کہ وہ حیرت انگیز اور بہت طاقت ور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ احتیاط سے تصاویر ، عنوانات اور کاموں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان دیکھے مناظر کو شامل کرتے ہیں۔