لاہور: (سپیشل فیچر) غیر ملکی جریدے کی شائع شدہ رپورٹ کے مطابق جب ایک محقق نے کتاب ''Des Destinees de l Ame‘‘ (روح کی منزلیں) کی کھوج میں ہاورڈ یونیورسٹی لائبریری کا جائزہ لیا تو اس کی بانچھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کتاب کی بائنڈنگ انسانی کھال سے کی گئی تھی۔
مزید تحقیق کرنے پر چند دیگر کتب کی بائنڈنگ کے بارے میں بھی یہی انکشاف ہوا۔ کتاب فوراً ہی سائنسی تجزیے کیلئے بھجوائی گئی۔ سائنس دانوں نے جلد سے بائنڈنگ کی تصدیق کرتے ہوئے کتاب کے دور اور چند دیگر کتب کے بارے میں بھی انکشافات کئے۔
بائنڈنگ میں استعمال ہونے والی کھال
ڈی این اے رپورٹ کے مطابق جلد بندی میں ایک ذہنی مریضہ کی کھال استعمال کی گئی تھی۔ کیونکہ بائنڈنگ میں ذہنی مرض کی دوا کے شواہد ملے ہیں ۔ مزید تحقیق کے مطابق یہ کتاب مصنف ارسینی ہوئو سیس ((Arsene Housayes) نے 1880ء میں ڈاکٹرلوڈو وک بولینڈ (Ludovic Bouland) کے حوالے کی تھی جس نے غیر معمولی حرکت کرتے ہوئے نئی جلد بندی کرنے کے بعد کتاب واپس کر دی۔ عین ممکن ہے کہ عورت اسی ڈاکٹر کے زیر علاج ہو۔ مگر قدرتی موت مرنے کے بعد ڈاکٹر نے کتا ب کو محفوظ بنانے کی غرض سے کھال کا کچھ حصہ جلد بندی میں استعمال کر لیا۔
جلد بندی میں کھال کا استعمال عام تھا
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر نے کوئی انہونی بات نہیں کی تھی، اس دور میں جلد بندی کا یہی طریقہ مستعمل تھا۔برطانیہ میں برسٹل ریکارڈ آفس ‘‘ کے جائزے سے بھی قیدیوں کی کھالیں استعمال کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ برسٹل جیل کا ریکارڈ گواہ ہے کہ اسی جیل میں ایلیزا بالسم کے قاتل جان ہاروڈ (John Horwood) کو سزائے موت دی گئی تھی، 1821ء میں پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد کھال کا کچھ حصہ جلد بندی میں استعمال کیاگیا تھا۔
کتاب کا موضوع
اس کتاب میں جیل میں مقید کچھ قیدیوں کے حوالے بھی ملتے ہیں۔ابتداء میں مجرم نے ایلیزا کو قتل کی دھمکیاں دیں، وہ جب بھی کنوئیں کی جانب پانی بھرنے جاتی تو مجرم سامنے آن کھڑا ہوتا، جملے بازی کرنا اس کا معمول تھا۔ایک دو مرتبہ پتھر بھی اچھالے۔ایلیزا کی عدم دل چسپی کے باعث اس کا غصہ بڑھنے لگا۔ ایک روز غصے میں آگ بگولہ ہو کر وہ بھاری پتھرکے ساتھ اس کی جانب لپکا۔ایلیزا دوڑتے ہوئے خوب چیخی چلائی لیکن اچانک مجرم نے پتھر پوری طاقت سے سر پر دے مارا۔ایک لمبی چیخ کے ساتھ ایلیز کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا۔چیخ و پکار سنتے ہی ایلیزا کی سہیلیاں بھی جمع ہو گئیں،اسے فوراََ ہی قریبی ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق کر دی۔ ایلیزا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ڈاکٹر رچرڈ سمتھ نے مکمل کی ، جس سے تشدد ثابت ہو گیا۔اس کی باقیات بھی ان کے آبائی قبرستان میں مل گئی ہیں۔
دیگر کتب کی تلاش
تشد ماہرین کے مطابق پرانے زمانے کی کئی کتب میں اسی طرح سے جلد بندی کی گئی تھی۔ماہرین نے اسے المناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صرف مجرموں کی جلد کے کچھ حصے استعمال کئے گئے تھے۔جیسا کہ بدنام زمانہ قاتل ولیم برکی کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیاتھا۔کئی قتل کے الزامات میں اسے بھی سزائے موت سنائی گئی تھی۔ایڈنبرا میں اناٹومی کی ایک نجی درس گاہ چلانے والا رابرٹ ناکس بھی اس دھندے میں ملوث تھا، وہ اپنے پاس آنے والی لاشیں بیچ دیا کرتا تھا،ڈاکٹر ولیم بھی اس کام میں اس کا شریک جرم تھا، ان دونوں نے کم و بیش 15لاشوں کے سودے کئے تھے‘‘۔