لاہور: (سپیشل فیچر) ماہرین ارضیات کے مطابق انسانی ارتقاء کا عمل لاکھوں برسوں پر محیط ہے ۔اس دوران آبادی بڑھتی گئی اور جنگل سکڑتے چلے گئے ۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ اب تو جنگلات میں کمی تشویش ناک ہو چکی ہے ۔ایمیزون ، جنوبی امریکہ میں واقع دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے ۔یہ یونانی زبان کا لفظ ہے جسکے لفظی معنی ''جنگجو عورت‘‘کے ہیں ۔
اس کے بیچوں بیچ دریائے ایمیزون بہتا ہے جو بہاؤ اور حجم کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اور لمبائی کے لحاظ سے دریائے نیل کے بعد دنیا کا دوسرابڑا دریا ہے۔اس جنگل کا رقبہ 55 لاکھ مربع کلو میٹر ہے جو براعظم جنوبی امریکہ کے20 فیصد رقبے کو گھیرے ہوئے ہے ۔ اس کا رقبہ آسٹریلیاکے برابر ہے ، 7 ممالک اس جنگل میں سما سکتے ہیں ۔یہ جنگل9 ممالک تک پھیلا ہوا ہے ۔اس جنگل کا 60 فیصد حصہ برازیل میں واقع ہے۔دیگر ممالک میں کولمبیا ، پیرو، وینز ویلا ، ایکواڈر، بولیویا ، گیانا، سرینام اور فرانسیسی گیانا شامل ہیں۔
دنیا کا عظیم دواخانہ
عام طور پر جنگلوں کی دو اقسام ہوتی ہیں، بارانی یا برساتی اور دوسرا کاشت کردہ جنگل ۔ حیات کی بقاء کیلئے جنگل کسی نعمت سے کم نہیں اسی لئے جنگلات کو زمین کے پھیپھڑے ز ‘‘بھی کہا جاتا ہے کیونکہ جنگلات آکسیجن کا سب سے مؤثر ذریعہ ہیں ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی 28فیصد آکسیجن برساتی جنگلوں کی مرہون منت ہے ۔ 40 سے 75 فیصد تک حیات برساتی جنگلات میں رہتی ہے ۔ منطقہ حارہ کے برساتی جنگلات زمین کا زیور‘‘ اور دنیاکا عظیم ترین دواخانہ‘ کہلاتے ہیں کیونکہ قدرتی ادویات بڑی تعداد میں یہاں کی جڑی بوٹیوں کی مرہون منت ہیں ۔جنگلات ہماری روزمرہ ضروریات کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی مضبوط کرتے ہیں ۔یہ جنگلات ہی ہیں جو بہت سارے انسانوں (اور جانوروں ) کو گوشت مہیا کرتے ہیں ۔جنگلات سے حاصل کی گئی لکڑی ایندھن کے ساتھ ساتھ فرنیچر کاغذ ، اور تعمیراتی صنعتوں کیلئے روح کی حیثیت رکھتی ہے۔
جنگل کا کم سے کم رقبہ
عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں جنگلات کا رقبہ اس کے کل رقبے کے کم از کم 25 فیصد کے برابر ہونا ضروری ہے ۔جبکہ روس میں اس کے رقبے کے تناسب سے20 فیصد ،برازیل کے 12 فیصد اور کینیڈا کے9 فیصد حصے پر جنگلات پھیلے ہوئے ہیں ۔یہ تینوں ممالک دنیا میں بالتر تیب پہلے ، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آتے ہیں ۔بدقسمتی سے پاکستان کے کل رقبے کے صرف 4 فیصد حصے پر جنگلات قائم ہیں ۔
ہم تو ایمیزون کے 10 فیصد حصے سے واقف ہیں
درحقیقت یہ کرہء ارض پر قدرت کا ایک عظیم شاہکار اور عجوبہ بھی ہے ۔اس کا ایک ثبوت تو یہ بھی ہے کہ جدید سائنسی دور میں بھی ابھی تک اسے مکمل طور پر دریافت نہیں کیا جا سکا۔ بقول ماہرین حیاتیات اس جنگل کا دس فیصد حصہ ہی دریافت کیا جا سکاہے‘‘ ۔ یہ جنگل کم اور ایک الگ دنیا‘‘زیادہ ہے جس میں حشرات الارض ، چرند ، پرند اور جانور پناہ لئے ہوئے ہیں ۔کیا جنگل کی یہ عظمت کا مظہر نہیں کہ ہمہ وقت کروڑوں جانداروں کی خوراک ، پانی اور جڑی بوٹیوں کے ذریعے دوا بھی مہیاکرتا ہے ۔ ماہرین حیاتیات کے مطابق یہ جنگل حشرات الارض کی 25لاکھ اقسام لاکھوں نباتات، پرندوں اور ممالیہ کی دوہزار اقسام کا گھر ہے ۔تحقیق کے مطابق اب تک 40ہزار پودوں ،تین ہزار مچھلیوں ،13 سو کے لگ بھگ پرندوں ، چار سو ستائیس ممالیہ اور جل تھیلی کے ساتھ ساتھ 380 کے قریب رینگنے والے جانوروں کی اقسام دریافت کی جا سکی ہیں ۔بعض ماہرین نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ دریافت شدہ جانوروں ، حشرات الارض اور چرند پرند کی40 فیصد سے زائد اقسام کا تعلق ایمیزون سے ہے ۔ ایمیزون میں 60 فیصد جاندار ایسے ہیں جن کی ابھی تک صحیح شناخت ہی نہیں ہو سکی۔یہاں کی مکڑیاں اتنی بڑی اور طاقت ور ہیں کہ پرندوں تک کو دبوچ لیتی ہیں ۔اسکے علاوہ یہاں ایسے زہریلے حشرات الارض بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر کسی انسان کو کاٹ لیں تو چند سیکنڈ کے اندراندر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔ 30 ہزار اقسام کے پھل اس عظیم جنگل میں پائے جاتے ہیں ۔
سیاح چار سال جنگل میں بھٹکتا رہا
اس جنگل کی وسعت اور گھنے پن کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر آپ ایمیزون میں ہوں اور بارش برسنے لگے تو بارہ منٹ تک بارش کا پانی آپ تک نہیں پہنچ پائے گا ۔ گھنے درختوں کی وجہ سے کئی حصوں میں سورج کی روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی ، دن میں بھی رات کا گمان ہوتا ہے ۔ 2013ء میں ایک کینیڈین سیاح اس جنگل میں راستہ بھٹک جانے کے باعث چار سال بعد اپنے گھر واپس پہنچاتھا ۔
معیشت کا اہم ستون
ایمیزون جنگل براعظم جنوبی امریکہ کی معیشت کا اہم ستون تصور کیا جاتا ہے ۔ خطہ ایمیزون سے بہت سی اشیاء دنیا بھر میں برآمد کی جاتی ہیں جن میں سرفہرست مویشیوں کا گوشت ، کھالیں ، لکڑی، سویا ، تیل و گیس ، معدنیات اور قیمتی جڑی بوٹیاں شامل ہیں ۔ ماہرین معاشیات کے مطابق پورے براعظم کے جی ڈی پی کا 70 فیصد حصہ ایمیزون کے یہ جنگلات مہیا کرتے ہیں ۔اور کثیر تعداد کی برآمدات کے باعث اس خطے کی فی کس آمدن میں خاطر خواہ اضافہ انہی جنگلات کے سبب بتایا جاتا ہے ۔
ایمیزون جنگل خطرات کی زد میں :ہمارے آرام و آسائش میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن ایمیزون کے جنگلوں میں صدیوں سے آباد قبائل ابھی تک پرانے رسم ورواج کو گلے لگائے ہوئے ہیں جن کا جدید دور سے کوئی رابطہ نہیں ہے، ایک اندازے کے مطابق یہاں چار سو سے زائد جنگلی قبائل آباد ہیں جنکی آبادی کا تخمینہ 45لاکھ لگایا جاتا ہے ۔یہ لوگ اکیسویں صدی میں بھی جنگلی انداز میں زندگی گزار رہے ہیں ۔دوسری طرف مشینی دور شروع ہونے کے باعث دنیا کے اس سب سے بڑے جنگل کا رقبہ تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے ۔