لاہور: (روزنامہ دنیا) جنگ ہمہ قسم کی تباہی لاتی ہیں۔ اس سے انسانوں کی جان جاتی، وہ زخمی اور معذور ہوتے ہیں۔ جسمانی زخم اگر بھر جائیں تو روح کے زخم بار بار تازہ ہوتے ہیں۔ جنگوں سے پیداہونے والے ذہنی مسائل طویل عرصہ تک اس میں حصہ لینے والوں اور اس کا مشاہدہ کرنے والوں کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ جدید دنیا نے بہت سی جنگیں دیکھی ہیں لیکن دوسری عالمی جنگ جتنی تباہی کسی جنگ میں نہیں ہوئی۔ اس میں چھ کروڑ سے زیادہ افراد کی جان گئی۔
یہ 1940ء میں دنیا کی کل آبادی کا تین فیصد بنتا ہے۔ کچھ لوگ گولیوں اور بموں سے اس کا نشانہ بنے تو کچھ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے قحط اور بیماریوں سے جان سے گئے۔ مثال کے طور پر سوویت یونین کے انحطاط کے بعد دوسری عالمی جنگ میں مرنے والے روسیوں کی تعداد کا ازسر نو جائزہ لیا گیا تو یہ تعداد دو کروڑ 66 لاکھ بتائی گئی۔ ان میں 85 لاکھ افراد جنگ کے سبب پھیلنے والے قحط اور بیماریوں سے مارے گئے۔ عوامی جمہوریہ چین کے مطابق جنگ کے دوران جاپانی کارروائیاں دو کروڑ چینیوں کی موت کا باعث بنیں۔ یورپ میں جرمن اور یہودی بھی بڑی تعداد میں اس جنگ کے دوران ہلاک ہوئے۔
جنگ کے آغاز میں روس اور چین کا کردار نہیں تھا لیکن اس میں سب سے زیادہ روسی اور چینی ہلاک ہوئے۔ اگرچہ مرنے اور زخمی ہونے والوں کی حتمی تعداد کے بارے میں معلوم نہیں اور اس حوالے سے مختلف تحقیقات میں مختلف دعوے سامنے آتے ہیں لیکن اس بات کو بہرحال تسلیم کیا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ کی یہ سب سے خونیں جنگ تھی۔ 22 نومبر 2004ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے آٹھ اور نو مئی کو اس کی یاد اور مصالحت کا عالمی دن قرار دیا۔ اس دن جنگ کا نشانہ بننے والوں کو یاد کیا جاتا ہے۔
آٹھ مئی کو دوسری عالمی جنگ میں اتحادیوں نے نازی جرمنی کی مسلح افواج کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی آفر کو قبول کر لیا تھا۔ یہی وہ جنگ تھی جو اقوام متحدہ کے قیام کی بنیاد بنی کیونکہ جنگ کی تباہیوں کے بعد اقوام عالم کے کرتا دھرتا اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ کوئی ایسا عالمی فورم ضرور ہونا چاہیے جس میں باہمی مسائل کو مشاورت سے نپٹایا جا سکے تاکہ معاملہ جنگوں تک نہ پہنچے۔ اس دن کے موقع پر دنیا بھر میں، بالخصوص ان ممالک میں کہ جو جنگ میں شامل رہے مختلف تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔
دوسری عالمی جنگ 1939ء سے 1945ء تک جاری رہی۔ ان میں اس وقت کے طاقت ور ممالک سمیت دیگر نے حصہ لیا۔ اس جنگ میں دو اتحاد قائم ہوئے ایک کو ’’اتحادی‘‘ کہا گیا جبکہ دوسرا ‘‘محور’’ (ایکسس) کہلایا۔ اس جنگ میں 30 سے زائد ممالک شریک ہوئے۔ انسانی تاریخ میں اتنے ممالک کبھی کسی ایک جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ اس کے سبب معیشت کار خ بد ل گیا اور ممالک نے ٹیکنالوجی اورسائنس کا رخ اسلحہ سازی کی طرف موڑ دیا۔ جنگ کی شروعات سے قبل جرمنی میں ہٹلر کی قیادت میں سخت گیر اور نسل پرست نازی پارٹی اقتدار میں آ چکی تھی اور اس نے ملک کے اندر طاقت کے زور سے حزب اختلاف کا صفایا کر دیا تھا۔
جرمنی کا اعلیٰ اور درمیانی طبقہ اس امر سے خفا تھا کہ زیادہ تر نوآبادیاں دوسرے یورپی ممالک کے قبضے میں ہیں اور وہ اس سے مستفید ہونے سے قاصر ہیں۔ یوںان میں قبضہ کرنے کا جنون سوار ہو گیا۔ ہٹلر کی قیادت میں پولینڈ میں مداخلت کو دوسری عالمی جنگ کا آغاز مانا جاتا ہے جو یکم ستمبر 1939ء کو شروع ہوئی۔ اس کے بعد مغربی یورپ کی بڑی طاقتوں فرانس اور برطانیہ کی باری آئی۔ جرمنی پورے یورپ کو اپنے زیراثر لانا چاہتا تھا اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اس نے اٹلی اور جاپان سے اتحاد کیا۔ اٹلی میں فسطائی خیالات کا حامل مسولینی اور سلطنت جاپان میں شہنشاہ ہیروہیٹو حاکم تھے۔ جنگ کے آغاز کے چند ماہ بعد ہی ہٹلر نے سوویت یونین سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔ اس دوران جرمنی کی جنگ یورپ سے باہر دوسرے براعظموں میں بھی پھیلتی گئی۔
جون 1941ء میں جرمنی نے سوویت یونین اور اسی برس اگست میں جاپان نے امریکا پر حملہ کر دیا۔ جاپان بحرالکاہل کی کئی یورپی نوآبادیوں پر کنٹرول کرنے میں کامیاب رہا۔ چار سے سات جون 1942 ء کو بحرالکاہل میں ایک لڑائی میں جاپان کو کراری شکست ہوئی۔ اسے بیٹل آف مِڈ وے کہا جاتا ہے۔ اس بحری جنگ میں امریکا نے جاپانی بحریہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ دوسری جانب شمالی افریقہ میں اٹلی اور جرمنی کو شکستیں ہونے لگیں۔ جرمنی کو ایک کٹھن لڑائی کے بعد سٹالن گراڈ میں شکست کا سامنا ہوا۔محوری ممالک پسپا ہونے لگے۔
1944ء میں مغربی اتحادی کامیابیاں حاصل کرتے گئے۔ ادھر جاپان کوپے در پے ناکامیاں ہوئیں۔ بالآخرجرمنی میں مغربی اتحادیوں اور سوویت یونین نے مشترکہ مداخلت کی اور برلن سوویت افواج کے ہاتھ آیا۔ اس دوران معلوم ہوا کہ ہٹلر نے خود کشی کر لی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جرمن فوجوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ بدقسمتی سے جاپان کے شکست کے کم و بیش یقینی ہونے کے باوجود امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیے جن سے کثیر تعداد میں جاپانی شہری ہلاک ہو گئے۔ اسی کے ساتھ جاپان نے ہتھیار ڈال دیے۔ جنگ کے بعد سامراجی مغربی ممالک کی طاقت میں کمی واقع ہوئی اور بہت تیزی سے نوآبادیاتی ممالک آزاد ہوئے۔
تحریر: رضوان عطا