استنبول (نیٹ نیوز ) ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن کا کہنا ہے کہ انقرہ اور ماسکو مل کر شام میں اُن شدت پسند گروپوں کا تعیّن کریں گے جن کو اِدلب صوبے میں غیر فوجی علاقے سے باہر کیا جائے گا۔ روسی اخبار Kommersant میں تحریر کیے گئے اپنے ایک مضمون میں ایردوآن نے کہا کہ سمجھوتے کے تحت شامی اپوزیشن اُن علاقوں کو برقرار رکھے گی جہاں وہ اس وقت موجود ہے۔
علاوہ ازیں شدت پسند گروپوں کا تعین کر کے ترکی اور روس انہیں مذکورہ غیر فوجی علاقے میں سرگرمیاں جاری رکھنے سے روک دینے پر کام کریں گے۔
ایردوآن نے "رائے اور ویژن" کے حوالے سے تینوں ممالک کے درمیان اختلافات کا اقرار کیا۔ تاہم انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ماسکو اور تہران کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رہے گا۔
دوسری جانب انقرہ کے حمایت یافتہ شامی اپوزیشن گروپوں نے گزشتہ ہفتے اِدلب کے حوالے سے روس اور ترکی کے درمیان دستخط کیے جانے والے معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ البتہ بعض دیگر گروپوں نے اس سمجھوتے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے ہتھیاروں اور اراضی پر ڈٹے رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔
شامی گروپ "نیشنل فرنٹ فار لبریشن" نے ترکی کی سفارت کاری کی اس بڑی کامیابی کو گراں قدر قرار دیا ہے۔ تاہم گروپ کا کہنا ہے کہ وہ روس، ایران اور شامی حکومت کی طرف سے غداری کے اندیشے کے سبب اپنے ہتھیاروں سے دست بردار نہیں ہو گا۔
ایک دوسرا گروپ "جبہۃ النصرہ" جو اب "ہیئۃ تحریر الشام" کے نام کا حامل ہے، اِدلب صوبے کے ایک بڑے رقبے پر کنٹرول رکھتا ہے۔ اس کی جانب سے ابھی تک سرکاری طور پر کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم گروپ نے اپنے زیر انتظام ایک نیوز ایجنسی کے ذریعے ترکی کی نیت پر شکوک کا اظہار کیا ہے اور انقرہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لیے کوشاں ہے۔
جہاں تک اِدلب صوبے میں القاعدہ اور ترکستان اسلامک پارٹی سے مربوط تنظیم "حراس الدین" کا تعلق ہے تو اس نے مذکورہ سمجھوتے کو مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم نے مسلح عناصر پر نئی کارروائیاں کرنے کے لیے زور دیا ہے۔ روس اور ترکی نے مسلح جماعتوں کو اِدلب سے نکل جانے کے لیے 15 اکتوبر تک کی مہلت دی ہے۔