لاہور: (روزنامہ دنیا ) صدر ٹرمپ کی طرف سے شروع کردہ امریکہ کی چین کے ساتھ تجارتی جنگ وسیع تر ہوتی جا رہی ہے، جس میں اب نایاب زمینی دھاتیں بھی ایک کلیدی ہتھیار بنتی جا رہی ہیں اور اس جنگ کے اقتصادی نتائج امریکہ کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
کیمیائی طور پر جو مادے نایاب زمینی دھاتیں یا Rare Earth Metals (REMs) کہلاتے ہیں، وہ دراصل اتنے نایاب بھی نہیں ہیں، جتنے سننے میں لگتے ہیں۔ اگر آپ کسی بھی سمارٹ فون کے بارے میں سوچیں، اپنے ہیڈ فونز پہنیں یا کسی الیکٹرانک آلے کی بیٹری کی بات کریں، تو آپ دراصل نایاب زمینی دھاتوں کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ یہی دھاتیں ان سب مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔ کہلانے والے مادوں کی کل 17 اقسام ہیں، جن میں نیوڈِم، لَینتھن اور سَیر جیسے کیمیائی مادے شامل ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ یہ سب دھاتیں ہائی ٹیکنالوجی انڈسٹری کے لیے ناگزیر ہیں۔
یہ بات چینی حکمرانوں کو بھی پتہ ہے اور وہ اسے اپنے لیے بڑی آسانی سے امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ چین کے لیے سٹریٹجک حوالے سے بہت فائدہ مند بات یہ ہے کہ یہ نایاب زمینی دھاتیں پوری دنیا میں زیادہ تر صرف چین سے نکالی اور وہیں پر صاف کی جاتی ہیں۔ انہیں عسکری نوعیت کے ساز و سامان میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بیجنگ امریکہ کے ساتھ، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے ، اپنی تجارتی جنگ میں کس قدر اہم اور فیصلہ کن ہتھیار کا حامل ہے، اس کا صرف ایک اشارہ چینی صدر شی جن پنگ نے چند ہفتے قبل اس وقت کرایا تھا جب انہوں نے وسطی چین کے صوبے گان ژُو میں REMs کی ایک فیکٹری کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد بیجنگ میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے یہ اشارہ بھی دے دیا گیا کہ چین چاہے تو امریکہ کو نایاب زمینی دھاتوں کی برآمد محدود یا بند بھی کر سکتا ہے۔
اس پس منظر میں اس سوال کا جواب کوئی راز نہیں بلکہ کسی بھی انسان کا عام سا اندازہ ہی ہو سکتا ہے کہ آیا بیجنگ امریکہ کے خلاف ان نایاب زمینی دھاتوں کو اپنے سب سے بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے ؟ چینی کمیونسٹ پارٹی واشنگٹن کے ساتھ اپنی تجارتی جنگ میں اپنے موقف کے اظہار میں ایک اہم جملے کا استعمال کرنا نہ بھولی۔ یہ جملہ تھا’’پھر نہ کہنا ہم نے تمہیں خبردار نہیں کیا تھا۔’’ تاریخ گواہ ہے کہ چینی حکومت یا کمیونسٹ پارٹی نے جب بھی یہ جملہ استعمال کیا ہے، اس کے بعد کوئی نہ کوئی بہت بڑا تاریخی واقعہ ضرور رونما ہوا ہے۔
مثال کے طور پر 1962ء میں بھی چین کی طرف سے یہی جملہ کہا گیا تھا، تو اس کے صرف 4 ہفتے بعد چینی فوجی دستے بھارت میں داخل ہو گئے تھے اور چینی بھارتی جنگ شروع ہو گئی تھی۔ پھر 1978ء میں جب بیجنگ نے ایک بار پھر یہی تنبیہی جملہ کہا تھا، تو اس کے صرف دو ماہ بعد چینی ویت نام جنگ شروع ہو گئی تھی۔ اب اس جملے کی بیجنگ میں امریکہ کے ساتھ تجارتی تنازعے کے حوالے سے ادائیگی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے ؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے واضح طور پر مراد نایاب زمینی دھاتوں کی امریکہ کو برآمد میں کمی یا بندش بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن امریکہ شاید بیجنگ کے اس اقدام کا متحمل نہیں ہو سکے گا، اس لیے کہ اس سے واشنگٹن کی پوری کی پوری ہائی ٹیک انڈسٹری کے مفلوج ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو جائیگا۔
امریکی وزیر تجارت وِلبر رَوس کے بقول امریکہ کے لیے مجموعی طور پر 35 دھاتیں اور خام زمینی مادے ایسے ہیں جنہیں وہ اپنی اقتصادی اور قومی سلامتی کے لیے انتہائی فیصلہ کن’ تصور کرتا ہے ۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان میں وہ 17 نایاب زمینی دھاتیں بھی شامل ہیں جو امریکی کمپنیاں زیادہ تر چین سے درآمد کرتی ہیں۔ چین کو اس شعبے میں تقریباً عالمگیر اجارہ داری حاصل ہے۔