سرینگر: (ویب ڈیسک) مقبوضہ وادی میں بھارتی قابض فوج نے کشمیریوں پر مسلمانوں کے مذہبی تہوار پر پابندی لگا دی، شہریوں کو نماز عید نہ پڑھنے دی۔ کرفیو برقرار ہے اور آٹھویں روز بھی انٹرنیٹ اور میڈیا بلیک آؤٹ کی وجہ سے جنت نظیر وادی دنیا سے کٹ کر رہ گئی۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق وادی بھر میں راستے مسدود ہیں جبکہ عوام کے پاس اشیائے خورد و نوش محدود ہو گئی ہیں۔ دکانیں بند ہیں، اے ٹی ایمز خالی ہو چکی ہیں، عوام میں سخت غصے پایا جا رہا ہے، کئی شہری عید پر قربانی نہ کر سکے، قابض فوج کی طرف سے ہر گھر، ہر گلی کی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نریندر مودی نے کشمیر میں ہندو آباد کرنے کی منصوبہ بندی کر لی
فرانسیسی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے نوجوانوں کا کہنا تھا کہ کئی ناکوں پر موجود فوجیوں سے اجازت لے کر متعدد رکاوٹیں عبور کر کے 20 کلو میٹر دور گیا ہوں لیکن کسی ایک بھی اے ٹی ایم مشین سے جانور خریدنے کے لیے پیسے نہ نکلوا سکا۔ میں نے سڑک پر آنے کا رسک بھی لیا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ شمشیر خان اور شجاع رسول نے مودی سرکار کے سخت اقدامات کو مذہب میں مداخلت قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی حکومت نے صورت حال ناقابل یقین حد تک سخت کر دی ہے۔ جب کرفیو ختم ہو گا تو ہم خود کو قربان کریں گے۔ جیسے عید پر ہم جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اسی طرح کرفیو کے بعد ہم اپنی قوم کے لیے اپنی جانیں قربان کریں گے۔
کچھ نوجوان ڈل جھیل کے پرسکون پانیوں میں کنڈی ڈال کر مچھلیاں پکڑنے میں مصروف ہیں ۔ کیا پھر سے پر امن ہونے جا رہا ہے؟ انھوں نے سوال کا جواب کہتے ہوئے دیا کہ یہ طوفان سے پہلے کا سکوت ہے۔ کشمیر میں طوفان آئے گا۔ عید گزرنے دو۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہاں کیا ہو گا۔ ہم ایک طویل عرصے کے لیے کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے لیے تیار ہیں مگر ہم کسی کو کشمیر دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے لیے ہم کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ کشمیر ہماری جنت ہے اور اس کے لیے ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔
دوسری طرف مودی سرکار کے اقدام سے مقبوضہ کشمیر کی معیشت کو سخت نقصان پہنچا ہے، ایک ہفتے کے کرفیو کے دوران کاروباری افراد کو ایک ہزار کروڑ روپے (10 ارب بھارتی روپے) کا نقصان ہوا ہے۔ بیکری اور لائیو سٹاک سے منسلک تاجر برباد ہو گئے ہیں۔
اُدھر عید الاضحیٰ پر بھی کرفیو نافذ ہے، لوگ گھروں میں محصور ہیں، کشمیری مائیں اپنے بچوں کی راہ تکتی رہیں، جنت نظیر وادی کے مکین ہندو پرست مودی کی وجہ سے ظلم کا شکار ہیں، کرفیو کی وجہ سے بیشتر کشمیری عید کی نماز بھی نہیں ادا کر سکے۔ کشمیری مسلمان سنت ابراہیمی کی ادائیگی سے بھی محروم کر دیئے گئے۔
وادی کے گلی کوچوں میں مسلح بھارتی فوجیوں کا گشت، ٹریفک، بازار، سکول بند، غذائی بحران بھی سنگین ہو گیا۔ کشمیر کا بیرونی دنیا سےآٹھ روز سے رابطہ منقطع ہے۔
مذہبی تہوار والے دن بھارتی فوج نے شہریوں کو بڑی مساجد کے بجائے صرف چھوٹی مسجدوں میں نمازیں پڑھنے کا کہا۔ وادی کی سب سے بڑی جامعہ مسجد سرینگر کو بھی بند رکھا گیا۔ چھوٹی مساجد میں لاؤڈ سپیکر استعمال کرنا نہیں دیا گیا، چھوٹی مساجد میں نماز عید کی ادائیگی کے بعد مظاہرین نےبھارت مخالف بلند شگاف نعرے لگائے۔
اُدھر کشمیریوں پنڈتوں کے گروپ نے بھی نیشنل کانفرنس کی طرح مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سپریم کورٹ میں چیلنج کر دی ہے۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت کو ختم کیے جانے کے بعد فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ایئر مارشل (ر) کپل کیک، فلمسٹار ایم کے رانا، کارڈیالوجسٹ اپندرا کول، سینئر صحافی شردا اگرا، انورادھا بھاشن سمیت دیگر لوگوں نے درخواست دائر کی۔
برطانوی اخبار نے لکھا کہ نریندر مودی کا ہندو بالادستی کا نظریہ سیکولر بھارت کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دے گا۔ دی اوبزرور نے لکھا کہ نریندر مودی کے اس فیصلے نے پاکستان کےساتھ تنازع کو پھر ہوا دے دی ہے۔ مودی نے بین الاقوامی طور پر متنازع سمجھے جانے والے اس علاقے میں اپنی من مانی کر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی دھجیاں اڑا دیں۔
دی گارڈئین کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو عید پر بھی اپنوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ دی ٹیلی گراف نے لکھا مودی ہندو قوم پرست کے قبضے میں کشمیر میں ہندو آباد کاری بڑھانا چاہتا ہے۔
دی ٹائمز کے مطابق پہلے یہ گول تھا کہ کشمیر کو لوٹ لو اور اب مودی اسے حاصل کرنے پر تل گیا ہے۔ نریندر مودی کے اس اقدام نے خطے میں آگ کو ہوا دے دی ہے۔ دی فنانشل ٹائمز کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں مودی کے ہاتھوں نازی ہٹلر کی تاریخ دہرائے جانے کا معاملے پر دنیا کو جھنجھوڑنے کیلئے وزیراعظم عمران خان نے اہم ٹویٹ میں پیغام دیا ہے۔
رائٹر ز نے لکھا عید والے دن مقبوضہ وادی میں بھارت مخالف نعرے گونجتے رہے۔ بلومبرگ کے ایڈیٹوریل میں مودی حکومت کے حالیہ اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ایک اور مغربی کنارہ بنا رہا ہے جو بہت بڑی غلطی ہو گی۔
کچھ اخبارات نے نریندر مودی کو ایشین ہٹلر کا خطاب بھی دیا اور لکھا کہ بھارتی وزیراعظم کے ہاتھ پہلے ہی خون سے رنگے ہیں۔