مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبری تسلط کو دو ماہ ہوگئے، کشمیری گھروں میں محصور

Last Updated On 03 October,2019 03:48 pm

سرینگر: (دنیا نیوز) مقبوضہ کشمیر میں مسلسل دو ماہ سے جاری کرفیو کے دوران موبائل فون، انٹرنیٹ سروس بند اور ٹی وی نشریات تاحال معطل ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں بدترین کرفیو کے باعث دکانیں، کاروبار، تعلیمی ادارے سنسان ہیں۔ کشمیریوں کا رابطہ 5 اگست سے دنیا سے منقطع ہے۔ وادی میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہو گئی ہے۔

بھارتی فوج نے نو سال کے کم عمر بچوں کو بھی حراست میں لے رکھا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے سے اب تک گرفتار افراد کی تعداد چالیس ہزار ہو سکتی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبری تشدد کو دو ماہ ہو گئے ہیں۔ امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق وادی کے رہائشیوں کی تکالیف میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

پیلٹ گن سے زخمی کشمیری نوجوان گرفتاری کے خوف سے ہسپتال نہیں جا سکتے۔ امریکی اخبار نے وادی کی صورتحال کی تصاویر بھی شائع کی ہیں۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبری تسلط کو دو ماہ ہونے کو ہیں۔ مودی سرکار نے وادی میں چپے چپے پر فوج تعینات کررکھی ہے۔

بھارتی فوج گھر سے نکلنے والے کشمیریوں کو گولی مارنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ کشمیری ہسپتال، سکول اور کام پر نہیں جا سکتے۔ وادی میں زندگی مفلوج ہوکررہ گئی ہے۔ اسی لاکھ لوگوں کو گھروں میں قید کر دیا گیا ہے۔

اخبار کے مطابق مظاہرے کرنے والے کشمیریوں کو شاٹ گن سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ زخمی کشمیری گرفتاری کے ڈر سے ہسپتال نہیں جا سکتے۔ بھارتی فوج نے ہزاروں افراد کو بلاوجہ گرفتار کیا ہے۔

قابض فوج گرفتار کشمیریوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ بھارتی انتظامیہ وادی میں حالات نارمل ہونےکے بارے میں کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے۔

ادھر معروف بھارتری صحافی اور نریندرا مودی کے گجرات میں قتل عام سے متعلق کتاب کی مصنفہ رعنا ایوب کا کہنا ہے کہ بھارت اب جمہوریت نہیں رہا بلکہ فاشسٹ ملک بن چکا ہے۔ حالات اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ تاج محل کو گرانے کی بات شروع ہو گئی ہے کیونکہ یہ مسلمان حکمران نے بنایا تھا۔

جنوبی افریقا کے شہر جوہانسبرگ میں تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کشمیری بھارت سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا اب جمہوریت نہیں رہا جسے میں 15 سال پہلے جانتی تھی۔ کشمیریوں کے دل میں میں نے بھارت کے لئے نفرت دیکھی ہے۔ مجھے اس پر نہ ہی تعجب ہے اور نہ ہی اس بات پر غصہ ہے۔ جب آپ پورے معاشرے کو یرغمال بنا کر رکھیں، انہیں عید کی نماز یا نماز جمعہ پڑھنے کی اجازت نہ دیں تو ایسی ہی نفرت جنم لیتی ہے۔