کیا بھارتی سپریم کورٹ اور مو دی کا گٹھ جوڑ ہے ؟

Last Updated On 05 October,2019 12:40 pm

اسلام آباد: (دی اکانومسٹ ) بھارت کے جج کشمیر میں حکومتی زیادتیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے فیصلوں کو غیر معمولی تاخیر سے دوچار رکھا تو پھر کسی بھی پیچیدہ یا متنازع معاملے پر رولنگ دینے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔

دو ماہ قبل بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بہت ہی دیدہ دلیری سے سات عشروں سے برقرار قانونی نظیر ختم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت سے محروم کر دیا یعنی اس کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی۔ حکومت نے جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو ختم کر کے پورے خطے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور دونوں کو یونین ٹیریٹری یعنی مرکز کا علاقہ قرار دے دیا۔ اب جموں و کشمیر پر نئی دہلی کی قومی یا مرکزی حکومت کا براہ راست تسلط ہے۔ اس اقدام نے بھارتی میڈیا کو تالیاں بجانے کی تحریک دی جبکہ جموں و کشمیر میں غیر معمولی اشتعال پیدا ہوا۔ مودی سرکار کے اس اقدام سے آئین کے بارے میں الجھے ہوئے اور پریشان کن سوالوں نے بھی جنم لیا۔

یہ سوال کس کے لیے پریشان کن ہیں؟ وادی کشمیر کے 70 لاکھ افراد یقینی طور پر شدید مضطرب ہیں۔ 5 اگست سے وادی کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی عملاً محاصرے میں ہے، پانچ لاکھ بھارتی فوجیوں اور چند سو مسلح عسکریت پسندوں کے درمیان پس کر رہ گئی ہے۔ دہشت گردی روکنے کے نام پر غیر انسانی نوعیت کے قوانین کے ذریعے حکومت نے سیکڑوں افراد کو کسی جرم میں نہیں بلکہ محض مظاہرے روکنے کے لیے گرفتار کر رکھا ہے۔ وادی کشمیر کے اندر، باہر اور اطراف نقل و حرکت انتہائی محدود کردی گئی ہے، موبائل فون اور انٹرنیٹ پر مکمل پابندی عائد ہے۔ اس کے جواب میں عسکریت پسند اور ان کے حامی سکول، دکانیں اور بازار بند رکھوا کر مکمل ہڑتال کی شکل میں اپنی پوزیشن مستحکم کر رہے ہیں۔ دہلی میں رشتہ داروں کے ہاں مقیم ایک کشمیری سول سرونٹ نے کہا کہ ماحول میں انتہائی گھٹن ہے، یہ سب کچھ بالکل ناقابل برداشت ہے۔ نوجوانوں کی ذہنی کیفیت انتہائی منتشر ہے اور وہ انتقام کے سوا کچھ بھی نہیں سوچ رہے۔

سپریم کورٹ کے لیے ، بہر حال، یہ سب کچھ کسی بھی اعتبار سے پریشان کن نہیں۔ اگست کے آخر میں سپریم کورٹ نے نریندر مودی کے اقدام کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کے حوالے سے چند درخواستوں پر غور کیا تو حکومت کو جواب دینے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا۔ یکم اکتوبر کو جب سپریم کورٹ کے جج اس حوالے سے پھر مل بیٹھے تو کوئی جواب پیش کرنے میں ناکامی پر حکومت کے وکلاء کو معمولی سی بھی سرزنش نہیں کی۔ اس کے بجائے انہوں نے خاصی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کو مزید وقت دے دیا۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کی آئندہ سماعت نومبر کے وسط میں ہے۔ واضح رہے کہ جموں و کشمیر کو بھارت کا باضابطہ حصہ بنانے سے متعلق وضع کیا جانے والا جموں اینڈ کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 31 دسمبر کو نافذ ہو جائے گا۔

کچھ اسی طور کی لاتعلقی یا عدم تشویش کے ساتھ سپریم کورٹ کے ایک اور (بڑے ) بینچ نے اسی دن کشمیر میں غیر قانونی گرفتاریوں، حراست اور مواصلاتی ذرائع کی بندش سے متعلق کیس کی سماعت ساتویں بار معطل کی۔ سپریم کورٹ نے حبس بے جا سے متعلق درخواستوں کو (جو قانون کے نظریات کی روشنی میں فوری سماعت کا معاملہ ہوتا ہے ) جموں و کشمیر ہائی کورٹ کو واپس بھیجا ہے جبکہ اسے یہ بات معلوم ہے کہ غیر قانونی حراست کے حوالے سے کم و بیش 250 مظاہرے ہوچکے ہیں اور متعلقہ درخواستوں کی سماعت صرف دو ججوں کے ذمے ہے۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ججوں کی کمی  اپاہج کن  حد تک پہنچ چکی ہے۔ 17 ججوں کی گنجائش ہے اور صرف 8 جج کام کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ججوں کے تقرر کی منظوری کا معاملہ کئی ماہ سے اٹکا رکھا ہے۔ جموں و کشمیر کے وکلاء بھی غیر قانونی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کے لیے ہڑتال پر ہیں۔

عوام کو معلومات تک رسائی کا حق دینے یا ان کی پرائیویسی کے تحفظ کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ متعدد مواقع پر حکومت کے سامنے کھڑی ہوئی ہے۔ قانونی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران اس حوالے سے سپریم کورٹ کا ریکارڈ زیادہ متاثر کن نہیں رہا۔ قانونی امور کے حوالے سے لکھنے والے وکیل گوتم بھاٹیہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں حکومت کی طرف جس طرح کا جھکاؤ دکھایا ہے اسے آئین سے چشم پوشی کا نظریہ ہی کہا جائے گا۔ مودی سرکار کے خلاف رولنگ دینے کے بجائے سپریم کورٹ نے معاملات کو متعدد بار غیر معمولی تعطل کا شکار رکھا ہے تاکہ وہ حکومت کے حق میں چلے جائیں۔ گزشتہ اپریل میں سپریم کورٹ نے انتخابات کے دوران ایک ایسے کیس کی سماعت سے صاف انکار کر دیا جس میں سیاسی جماعتوں کو گمنام و مشتبہ طریقے سے لامحدود عطیات دینے کے لیے مودی سرکار کی طرف سے متعارف کرائے جانے والے الیکٹورل بونڈز کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ عذر تراشا کہ انتخابی نتائج سے قبل سماعت کے لیے وقت بالکل نہیں بچا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کیس ایک سال سے سپریم کورٹ کی فہرست میں موجود تھا۔ قومی سطح کی بایو میٹرک شناختی اسکیم سے متعلق  آدھار  کیس میں سپریم کورٹ نے یہ کہنے کے لیے پانچ سال کا انتظار کیا کہ اسے محدود کیا جائے۔ اس دوران ایک ارب افراد کا اندراج ہوا۔ سپریم کورٹ کو یہ رولنگ دینے میں دو سال لگے کہ مودی سرکار نے دہلی کی مقامی سیاست میں مداخلت کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔

مگر خیر، بھارتی سپریم کورٹ ہمیشہ خواب خرگوش کے مزے نہیں لوٹتی رہی۔ کم از کم ایک کیس میں (جس نے بنیادی حقوق کے حوالے سے سنجیدہ سوال اٹھائے ) سپریم کورٹ کے جج حکومت سے زیادہ جارحانہ موڈ میں دکھائی دیئے۔ یہ سپریم کورٹ ہی تھی جس نے آسام کی حکومت کو حکم دیا کہ وہ رجسٹر آف سٹیزنز کو اپ ڈیٹ کرے۔ اس رولنگ سے ریاست کے 3 کروڑ 30 لاکھ باشندوں کو، جن کی اکثریت غریب اور ناخواندہ ہے، مجبور کیا کہ اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے عشروں پر محیط دستاویز کو تیار حالت میں رکھیں۔ کم و بیش 19 لاکھ افراد (جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ) درست کاغذات پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ ان کے حوالے سے کچھ سوچنے کے بجائے ریاستی حکومت حراستی مراکز قائم کرنے میں مصروف ہے۔ مودی سرکار یہ جال اب پورے ملک میں پھیلانا چاہتی ہے۔ گوتم بھاٹیہ لکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ ریاست کے تین بنیادی ستونوں میں سے ہے مگر اس کے بجائے اب یہ منتظمہ (حکومت) کا حصہ دکھائی دے رہی ہے۔ بنیادی حقوق کی پاسداری یقینی بنانے کے لیے منتظمہ کی کارکردگی کا جائزہ لے کر خامیوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے یہ اس کی سہولت کار سی ہوتی جارہی ہے۔

سپریم کو جن درخواستوں کی سماعت کرنی ہے ان میں سے ایک میں جموں و کشمیر کے گورنر کو قانون ساز اتھارٹی کی حیثیت سے کام کرنے کا اختیار دینے میں نریندر مودی کا ہاتھ ہونے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ گورنر کے دفتر کو قانون ساز ادارے کی حیثیت سے کام پر لگانے کا مقصد جموں و کشمیر کو مرکز کے براہ راست تصرف میں آنے والے علاقے کی حیثیت دینا تھا جیسا کہ قانونی تقاضا ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں انتخابات ہونے تھے۔ مرکزی حکومت نے عارضی صورت یا بندوبست کو پورے علاقے (جموں و کشمیر) کی بنیادی، مستقل اور غیر تبدیل پذیر حیثیت تبدیل کرنے لیے استعمال کیا اور اس حوالے سے کشمیریوں سے ان کی رائے جاننے یا مرضی معلوم کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی۔ اس نوعیت کے کرتب عدالتوں سے ملی بھگت کے ذریعے ہی دکھائے جاسکتے ہیں۔
 

Advertisement