واشنگٹن: (ویب ڈیسک) امریکا کے مقامی صحت حکام نے انکشاف کیا ہے کہ کورونا وائرس وقت سے بھی پہلے امریکا پہنچ چکا تھا، تاہم اسے محض فلو سمجھا گیا۔
تفصیلات کے مطابق سانتا کلارا کاؤنٹی کے ہیلتھ آفیشلز نے بتایا ہے کہ کو وِڈ 19 وقت سے کئی ہفتے قبل جنوری ہی میں کیلیفورنیا میں گردش کر رہا تھا اور اس سے ہونے والی اموات کے بارے میں یہ غلط فہمی تھی کہ ان کی وجہ فلو ہے۔
امریکی کاؤنٹی کی افسر سارا کوڈی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 6 فروری کو ایک 57 سالہ خاتون کی کورونا وائرس سے موت ہو گئی تھی۔ اس سے قبل امریکا میں کورونا سے کوئی موت رپورٹ نہیں ہوئی تھی۔
امریکا میں جو پہلی موت بتائی گئی ہے وہ 29 فروری کو واشنگٹن میں ہوئی تھی، مریض کو وِڈ 19 کی وجہ سے سانس کی نالی کی بیماری میں مبتلا تھا۔ ان خبروں کے بعد کیلیفورنیا کے صحت حکام نے کورونا وبا کے پھیلاؤ کو سمجھنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔
گزشتہ روز کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے تمام 58 کاؤنٹیز کے میڈیکل ایگزامنرز کو ہدایت جاری کی تھی کہ دسمبر 2019ء میں ہونے والی اموات سے متعلق بھی تحقیق کی جائے تاکہ معلوم ہو کہ کہیں کورونا وائرس سے اموات اس سے بھی قبل تو واقع نہیں ہوئیں۔
کیلیفورنیا کی خاتون کی موت اور دیگر دو کیسز، ایک 69 سالہ شخص جو 17 فروری کو اور 70 سالہ ایک اور شخص جو 16 مارچ کو مرا تھا، کے بارے میں CDC نے اب ٹشو سیمپلز کے ٹیسٹ سے تصدیق کر دی ہے کہ وہ کورونا وائرس سے ہوئی تھیں۔
سارا کوڈی کا کہنا تھا کہ کاؤنٹی میں اس انکشاف سے قبل پہلے مقامی کیس کی نشاندہی 28 فروری کو کی گئی تھی تاہم جن تین مریضوں کی موت ہوئی تھی ان میں سے کسی نے سفر نہیں کیا تھا۔
سارا کوڈی کا کہنا تھا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم جو سمجھ رہے تھے، اس سے بھی پہلے کورونا وائرس ہماری کمیونٹی میں بہت تیزی سے پھیل چکا تھا، اس وقت چونکہ فلو کا سیزن چل رہا تھا۔ اس لیے ان کیسز کو بھی انفلوئنزا سمجھا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ تین کیسز کی نشاندہی اس لیے ہوئی کیونکہ میڈیکل ایگزامنرز ان کی موت کی وجہ سے مطمئن نہیں ہو سکے تھے، اس وقت کورونا وائرس کا ٹیسٹ دستیاب نہیں تھا اس لیے انھوں نے ان کی میتوں سے ٹشوز محفوظ کر کے سی ڈی سی بھجوائے۔
یاد رہے کہ امریکا میں کورونا وائرس سے اموات کی تعداد 47 ہزار سے زائد ہو گئی ہے، جبکہ کیسز کی تعداد 8 لاکھ 49 ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔