ولنگٹن: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث دو لاکھ سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں جبکہ متعدد ممالک اس وباء سے نمٹنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں تاہم وائرس کے خلاف امید کی کرن سامنے آئی ہے، نیوزی لینڈ وباء کو شکست دینے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی عالمی تباہی کی لپیٹ میں ہر کوئی ہے۔ جن لوگوں کو یہ وباء نہیں لگی وہ اس کے خوف میں رہ رہے ہیں اور خوف بالکل حقیقی ہے جس سے کوئی فرار نہیں۔ وبا دنیا کے مختلف ممالک میں تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیل رہی ہے اور چین سے لیکر امریکا تک متاثرہ افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تاہم عالمی سطح پر کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے بعد نیوزی لینڈ سے حوصلہ افزاء خبر سامنے آئی ہے، جہاں پر وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے پریس بریفنگ میں کورونا وائرس پر فتح حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے اسی دوران انہوں نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے مقامی سطح پر خاتمے کے باوجود احتیاط ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کورونا وائرس کے منتقلی کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا، ہم سب سے واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے یہ جنگ جیت لی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں کورونا سے 2 لاکھ 11 ہزار ہلاکتیں، متاثرین 30 لاکھ 64 ہزار سے متجاوز
واضح رہے کہ نیوزی لینڈ میں کورونا وائرس کے باعث 19 افراد ہلاک ہوئے جبکہ ملک میں متاثرہ افراد کی تعداد 1472 تھی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دنیا بھر میں کورونا سے قیامت خیز صورتحال پیدا ہو گئی ہے، ہلاکتیں 2 لاکھ 10ہزار سے زائد ہو چکی ہیں، متاثرین 30 لاکھ سے تجاوز کر گئے۔ امریکا میں ایک روز میں مزید ایک ہزار 384 افراد ہلاک ہو گئے، ملک میں اموات کی تعداد 56 ہزار797 ہو گئی۔
امریکا میں 10 لاکھ سے زائد افراد کورونا کا شکار ہو چکےہیں۔ نیو یارک کورونا وائرس کی وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ ریاست ہے جہاں وائرس سے متاثرہ روزانہ 1000 نئے مریض سامنے آرہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ نے چین کے کورونا وائرس کے خلاف ابتدائی ردِعمل پر انتہائی سنجیدہ تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
فرانسیسی صدر نے پارلیمان میں اپنی تقریر کے دوران ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں نرمی کا منصوبہ پیش کیا۔
اس منصوبے پر فرانس کے مختلف حصوں میں عمل ہوگا تاہم جن علاقوں میں وبا پھیلی ہے وہاں سخت پابندیاں برقرار رہیں گی۔
11 مئی سے ایلیمنٹری سکول بتدریج کھلتے جائیں گے جس کے بعد مڈل سکول ایک ہفتے کے فرق سے کھلیں گے۔ ہائی سکولوں کے بارے میں فیصلہ مہینے کے آخر میں کیا جائے گا۔
دکانیں اور بازار بھی کھولنے کے اجازت ہوگی تاہم بارز اور ریستوران نہیں کھولے جائیں گے۔ دکاندار اپنی دکان کی حدود میں گاہکوں کو ماسک پہننے کی تاکید کریں گے۔
پبلک ٹرانسپورٹ اور تمام سکولوں میں بھی ماسک لازم ہوں گے ماسوائے بہت چھوٹے بچوں کے سکولوں کے لیے۔
اس کے علاوہ صدر نے ریاست میں ہنگامی حالت کے نفاذ میں توسیع کی بھی تجویز دی جو فی الوقت 23 جولائی تک کے لیے ہے۔ اس ہنگامی حالت کے تحت حکومت نقل و حمل اور کاروباروں کو محدود کرسکتی ہے۔
صدر نے زور دیا کہ اگر 11 مئی تک فرانس میں انفیکشن کے پھیلنے کی شرح 3000 یومیہ تک نہ آئی تو لاک ڈاؤن میں نرمی نہیں کی جائے گی۔
اب اس منصوبے پر فرانس کی قومی اسمبلی میں بحث اور رائے شماری کی جائے گی۔
وزیر اعظم ایڈوارڈ فلیپے کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے اقدامات کی وجہ سے ایک ماہ کے عرصے میں 62 ہزار جانیں بچی ہیں۔
مسٹر فلیپے اس وقت 11 مئی کے بعد سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے حکومتی منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ اس منصوبے پر پارلیمان میں ووٹنگ ہوگی۔
فرانس میں اب تک 23 ہزار 300 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں اور ملک میں ایک لاکھ 65 ہزار 842 کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے منگل کے روز صحت اور سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے ملک میں نافذ ہنگامی صورتحال کی مدت میں تین ماہ تجدید کا حکم دیا ہے۔
اپریل 2017 میں مصر کے دو گرجا گھروں میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد سے ملک میں ہنگامی صورتحال کا نفاذ ہے۔ ان دھماکوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی تھے۔
ہنگامی صورتحال کی مدت میں یہ نئی توسیع اس وقت سامنے آئی ہے جب عرب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا یہ ملک کورونا وائرس کی بیماری کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔
صدرارتی محل سے جاری ہونے والے حکم نامے میں کہا گیا ہے ’سرکاری صحت اور سلامتی کی سنگین صورتحال کے پیش نظر، منگل 28 اپریل سے تین ماہ کے لیے ملک بھر میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا گیا ہے۔‘
وزارت صحت کے مطابق 100 ملین آبادی والے مصر میں اب تک 4782 افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی ہے جن میں سے 337 ہلکا اور 1236 صحت یاب ہوچکے ہیں۔