نئی دہلی: (روزنامہ دنیا) لداخ اور شمالی سکم کے مختلف متنازعہ علاقوں پر چین اور بھارت میں کشیدگی بتدریج بڑھنے لگی، دونوں ملکوں نے متنازعہ سرحدی علاقوں میں مزید فوج تعینات کر دی۔
بھارتی ذرائع کے مطابق چین اور بھارت نے دولت بیگ اولڈی، ڈمچوک کے علاوہ دریائے گلوان اور جھیل پانگونگ تسو جیسے حساس علاقوں میں مزید فوجی دستے تعینات کر دیئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وادی گلوان میں چینی فوج کے قابل ذکر تعداد میں خیمے دیکھے جا سکتے ہیں، جس کے باعث بھارت نے اس علاقے کی کڑی نگرانی شروع کر دی ہے۔ دونوں ملکوں کے اس جارحانہ رویے کی وجہ درہ لیپولیکھ کو ملانے والی سڑک کی تعمیر پر نیپال کیساتھ بڑھتی کشیدگی ہے۔ بھارتی آرمی چیف منوج موکنڈ نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں نیپال کے اعتراض کو کسی اور کی شہ کا نتیجہ قرار دیا تھا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آرمی چیف منوج موکنڈ نیپال کا کب دورہ کریں گے، جبکہ حسب روایت بھارتی آرمی چیف عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد نیپال کا دورہ کرتا ہے۔ ان کے پیش رو جنرل بپن راوت نے عہدہ سنبھالنے کے دو ماہ بعد نیپال کا دورہ کیا جہاں انہیں نیپالی فوج کے اعزازی جنرل کا اعزاز دیا گیا۔ بھارتی فوج اور وزارت دونوں نے بڑھتی کشیدگی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ 9 مئی کو چینی اور بھارتی فوجیوں کے درمیان دست بدست لڑائی پر اپنے ردعمل میں بھارتی وزارت خارجہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بھارت چینی سرحد پر امن برقرار رکھنے کے عزم پرقائم ہے۔
سوموار کو چین کے سرکاری میڈیا نے ایک رپورٹ میں کہا کہ چینی فوج نے وادی گلوان اور اکسائی چن میں بارڈر کنٹرول سے متعلق اقدامات مزید سخت کر دیئے ہیں۔ گلوبل ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں چینی اقدامات کو بھارت کی جانب سے وادی گلوان میں دفاعی تنصیبات کی غیر قانونی تعمیر کا ردعمل قرار دیا۔ چین نے کالی گنگا کے معاملے کو بھارت اور نیپال کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ دونوں ہمسائے یکطرفہ اقدامات سے گریز اور دو طرفہ بات چیت کے ذریعے تمام تنازعات حل کریں۔