بیروت: (ویب ڈیسک) لبنان کے صدر میشال نعیم عون نے بیروت میں ہونے والے دھماکے میں غیر ملکی ہاتھ کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکا بندرگاہ پر میزائل یا بم سے کیا گیا حملہ بھی ہوسکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر میشال نعیم عون نے بندرگاہ میں امونیم نائٹریٹ کے ذخیرے میں خوفناک دھماکے پر کسی بھی عالمی ادارے سے تحقیقات کرانے کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکا کی دو بنیادی وجہ ہوسکتی ہیں یا تو حکام کی جانب سے غفلت برتی گئی یا پھر بیرون ملک سے حملہ کیا گیا ہو۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے لبنانی صدر نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ملک کا موجودہ نظام مفلوج ہوچکا ہے جس کی وجہ سے جلد فیصلے اور ان پر فوری عمل درآمد کرانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس لیے اس بوسیدہ نظام پر نظر ثانی ہونی چاہیئے۔ ہماری حکومت سسٹم میں اتفاق رائے کے ساتھ مثبت تبدیلیاں لا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بیروت دھماکا، لبنان کو 15 ارب ڈالر کا نقصان، ہسپتالوں میں مریضوں کی گنجائش ختم
صدر میشال عون نے عوام سے شفاف اور سبک رفتار انصاف کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے نظام کو بہتر کررہے ہیں اور اسی نظام سے اپنے لوگوں کو انصاف دلائیں گے اس لیے دھماکے پر عالمی تحقیقات کا جواز برقرار نہیں رہتا،غیرملکی اداروں سے تحقیقات کی ضد سچائی کو کمزور کرنے کی کوشش ہوگی۔
واضح رہے کہ منگل کے روز بیروت کی بندرگاہ پر امونیم نائٹریٹ کے ذخیرے میں خوفناک دھماکے کے نتیجے میں 150 افراد ہلاک، 5 ہزار سے زائد زخمی، سیکڑوں عمارت مکمل طور پر تباہ اور 3 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بیروت دھماکا: لبنانی بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے: ترک صدر رجب طیب اردوان
اس سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ بیروت کی بندر گاہ پر 154 افراد کی ہلاکتوں اور 5 ہزار سے زائد کے زخمی ہونے کا موجب بننے والے دھماکے سے متاثر ہونے والے برادر ملک لبنان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
آیا صوفیہ مسجدِ کبیرہ میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے فوجی طیارے کے ذریعے وہاں پر مختلف امدادی سامان روانہ کیا ہے جن میں متعدد عسکری امداد بھی شامل ہے۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ شعبہ طب کے حوالے سے بھی امدادی ساز سامان روانہ کیا گیا ہے ہم لبنان کا اس مشکل گھڑی میں پرعزم طریقے سے ساتھ دیں گے۔ مسمار ہونے والے مقامات کی تعمیر میں کتنے سال لگیں گے یہ ایک دوسرا معاملہ ہے۔ تاہم یہ بات دو ٹوک ہے کہ ہم مالی طور پر ملک کے شانہ بشانہ رہیں گے۔