انقرہ: (ویب ڈیسک) یونان کی جانب سے بحیرہ روم میں اتحادی ممالک کے ساتھ جاری جنگی مشقوں کے بعد ترکی نے بھی خطے میں بحری مشقوں کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق یونان نے ایک روز قبل فرانس، اٹلی اور قبرص کیساتھ مشرقی بحیرہ روم میں فوجی مشقوں کا آغاز کیا تھا جس پر ترکی نے یونان کو خبردار کیا تھا کہ وہ ایسے اقدامات کرنے سے باز رہے جو اس کی ’بربادی‘ کا باعث بنیں۔
دوسری جانب انقرہ کی جانب سے فرانس پر بھی خطے میں ’بدمعاشی‘ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یونان ایسے اقدامات سے گریز کرے جو’بربادی‘ کا باعث بن سکتے ہوں: ترک صدر
فرانس یورپین یونین کے طاقتور کیمپ میں یونان کی حمایت کی قیادت کر رہا ہے۔ فرانسیسی فریگیٹ اور لڑاکا طیارے گزشتہ روز یونانی جنگی مشقوں میں شامل ہوئے جبکہ اٹلی اور قبرص بھی ان مشقوں میں شامل ہیں۔
کشیدگی میں فرانس کی مداخلت پر انقرہ پریشانی کا شکار ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترک وزیر دفاع نے پیرس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بدمعاشی کا دور گزر چکا ہے۔ آپ ہمیں دھونس کے ذریعے اقدامات کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔
انہوں نے خطے میں فرانسیسی فوج کی موجودگی کے بارے میں کہا کہ ترکی یا ترک مسلح افواج کی سرگرمیوں کو روکنے یا تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنا خواب کے علاوہ کچھ نہیں۔
ترک بحریہ کا کہنا ہے کہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ بحیرہ روم میں اپنی حدود کے آخری کنارے کے پانیوں میں آئندہ منگل اور بدھ کو توپوں سے جنگی مشقیں کریں گے۔
ترکی کے وزیر دفاع ہولوسی آکار نے کہا کہ یہ مشقیں سلامتی سے متعلق ہیں اور ان کا سمندر سے گیس کی تلاش کے حوالے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا یونان اور ترکی کے درمیان کشیدگی پر تشویش کا اظہار
واضح رہے کہ ترکی کی جانب سے بحیرہ اسود میں قدرتی گیس کی دریافت کے اعلان نے یونان اور یورپی یونین میں بے چینی پھیلا دی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی اور یونان دونوں ہی نیٹو کے ارکان ہیں اور ایک ہی وقت میں جنگی مشقوں کا انعقاد کر رہے ہیں، یہ تناؤ توانائی کے بڑے ذخائر تک یورپ کی رسائی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور جنگ سے متاثرہ لیبیا اور مشرق وسطیٰ کے کچھ حصوں میں مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز یونانی وزیراعظم کریاکوس میتسوتاکیس اور ترک صدر رجب طیب اردوان سے گفتگو کی ہے جسے بڑھتی کشیدگی میں ان کی پہلی براہ راست مداخلت سمجھا جا رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے نیٹو کے اتحادی ممالک یونان اور ترکی کے مابین بڑھتے ہوئے تناؤ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ترکی نے 10 اگست کو تحقیقی بحری جہاز کو خطے کے متنازع پانیوں میں گیس کی تلاش کے لیے بھیجا تھا۔ یونان بھی سمندر کے اس حصے پر ملکیت کا دعویدار ہے۔ ترکی کے اس تحقیقاتی مشن کی سرگرمیاں گذشتہ اتوار کو ختم ہونے والی تھیں لیکن اب انہیں جمعرات تک بڑھا دیا گیا ہے۔
ترکی کے وزیر دفاع نے یہ نہیں بتایا کہ آیا یہ تحقیقی بحری جہاز اور اس کے ساتھ نیوی فریگیٹس منصوبے کے مطابق جمعرات کو واپس لوٹ آئیں گی یا اس میں مزید توسیع کی جائے گی۔
لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ مشرقی بحیرہ روم میں ترک مشقوں اور گیس کی تلاش کے لیے نہ تو کوئی آخری تاریخ اور نہ ہی کوئی حد مقرر کی گئی ہے۔ ضرورت کے مطابق کام جاری رکھا جائے گا۔ ہم اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔
یاد رہے کہ حالات کو قابو میں رکھنے اور مذاکرات کو ٹریک پر لانے کے لیے جرمنی کی کوششیں اب تک غیر موثر ثابت ہوئی ہیں۔
یونان کے وزیر اعظم کریاکوس میتسوتاکیس نے کہا ہے کہ ایتھنز واضح طور پر کشیدگی کم کرنے کے لیے تیار ہے تاہم اس کے لیے ترکی کو اپنی اشتعال انگیز کارروائیوں کو فوری طور پر روکنا ہو گا۔
ترک صدر نے پہلے ہی یونان سے مذاکرات سے قبل پیشگی شرائط ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اس دوران یورپی یونین ترکی کو جواب دینے کے طریقے پر تقسیم نظر آتا ہے۔
14 اگست کو یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی ویڈیو کانفرنس میں یونان ترکی پر پابندیاں عائد کرانے کی کوششوں میں ناکام رہا تھا کیوں کہ ترکی کو جنوبی یورپی کے کچھ ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
توقع ہے کہ جمعرات اور جمعے کو برلن میں یورپی یونین کے اجلاس میں یونان ترکی پر پابندی عائد کرانے کی دوبارہ کوشش کرے گا۔