نئی دہلی، بیجنگ: (ویب ڈیسک) بھارت اور چین کے مابین کئی ماہ سے زیادہ جاری رہنے والے فوجی تنازع کے بعد ماہرین نے انتباہی انداز میں کہا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی غیر ارادی جنگ کی طرف بڑھ سکتی ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق 45 سالوں سے تحریری اور غیر تحریری معاہدوں کے ایک طویل سلسلے کے باوجود اس سرحد پر ایک بے چینی ہمیشہ برقرار رہی ہے لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے جاری مختصر جھڑپوں نے یہاں صورت حال کو غیر متوقع بنا دیا ہے۔ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ دونوں طرف سے کسی بھی غلط اندازے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے جن کی گونج اس سرد صحرائی خطے سے باہر تک جائے۔
بھارتی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کے مطابق صورت حال بہت کشیدہ ہے اور کسی بھی وقت قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ اب انحصار اس چیز پر ہے کہ فریقین ایک علاقے میں بھڑکتی آگ کو کس طرح باقی ملک میں پھیلنے سے روک سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لداخ: چینی فوج نے دورانِ جھڑپ کرنل سمیت 20 بھارتی فوجی مار دیئے، متعدد لاپتہ
دونوں ایشیائی طاقتوں نے ایسے متعدد لاحاصل مذاکرات کیے جن میں بنیادی طور پر فوجی کمانڈر شامل رہے۔ ان مذاکرات کو سیاسی قبولیت بخشنے کا اشارہ دیتے ہوئے دونوں ممالک کے وزرائے دفاع نے جمعہ کے روز روسی دارالحکومت میں اس تعطل کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ چار ماہ قبل لداخ میں ٹکراؤ کے بعد فریقین کا یہ پہلا اعلیٰ سطحی براہ راست رابطہ تھا۔
قبل ازیں مئی کے شروع میں دونوں طرف سے فوجیوں کے مابین شروع ہونے والے اس جھگڑے سے پہلے سرحدوں پر تناؤ شروع ہوا۔ جون میں صورت حال ڈرامائی طور پر بگڑتی چلی گئی جب بھارت کے مطابق چینیوں نے ڈنڈوں، پتھروں اور گھونسوں کے ساتھ لڑائی کی جس میں 20 بھارتی فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ چین نے کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں دی۔
یہ بھی پڑھیں: ایک انچ زمین پر بھی سمجھوتہ نہیں ہو گا:چین کابھارت کو جواب،ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش
یہ تنازع دنیا کے بلند ترین علاقے اور وہاں واقع ایک ایسے گلیشیر پر ہے جو دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی نظام کو پانی فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
ڈی ایس ہوڈا نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں دونوں طرف سے کسی بڑی جنگ کی خواہش موجود نہیں لیکن المیہ ہو گا کہ ایسی کسی بھی جھڑپ کے بعد ایک دم سارے معاہدے اور سرحدی احتیاطیں دھری رہ جائیں۔
پیکنگ یونیورسٹی بیجنگ کے پروفیسر برائے بین الاقوامی تعلقات وانگ لیان نے کہا کہ کسی بڑی اور پھیلی ہوئی جنگ کا امکان نہیں ہے کیونکہ حالیہ جھڑپوں میں دونوں فریقوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت باز نہ آیا، لداخ میں سرحد پر گشت کرنیوالے چینی فوجیوں پر فائرنگ
انہوں نے یہ بھی کہا کہ نئی دہلی پر چین مخالف جذبات کا دباؤ ہے اور چین کے خلاف سخت امریکی اقدامات سے اس کی مزید حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
وانگ لیان نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ (بھارت) بڑے پیمانے پر فوجی تنازع بڑھا سکتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ دونوں فریق کچھ تیاریاں کر رہے ہیں۔
بھارتی دفاعی تجزیہ کار راہول بیدی کا کہنا ہے کہ جون کی مہلک جھڑپ کے بعد بھارت نے سرحدی جنگ کے اصولوں کو تبدیل کردیا ہے۔ مقامی فوجی کمانڈروں کو چینی فوجیوں کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائیوں کا مناسب اور متناسب ردعمل دینے کی آزادی دی گئی ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں اور ریٹائرڈ جرنیلوں سمیت بھارت کی سٹریٹجک برادری کے ممبران کا کہنا ہے کہ چین کی فوج نئے محاذ کھول کر باہمی عدم اعتماد کو گہرا کررہی ہے اور سردیوں سے پہلے فوری طور پر دستبرداری میں تاخیر کر رہی ہے جبکہ اس خطے میں درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سیلسیئس (منفی 58 فارن ہائیٹ) تک گر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چین نے لداخ کے بعد اروناچل پردیش پر بھی اپنا دعویٰ دہرا دیا
ان کا کہنا ہے کہ موسم سرما میں یہاں فوج تعینات کرنے کی لاگت بھارت معیشت کے لیے بھیانک ہو گی جو پہلے ہی کورونا وائرس کی وجہ سے ختم ہوچکی ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت کی فوج کے لیے ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ چین کے کلیدی اتحادی پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر اس کا کئی دہائیوں پرانا علاقائی تنازع بھی ہے۔
بھارتی فوجی پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ اگر بھارت اور چین کے مابین ایک باقاعدہ جنگ ہوتی ہے تو پاکستان چین کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے جس سے بھارت کے لیے اور بھی خطرناک صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔
بھارت کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت نے گزشتہ ہفتے پاکستان کو کہا تھا کہ وہ چین کے ساتھ پیدا ہونے والے بحران سے فائدہ اٹھانے کا مت سوچے۔
بپن راوت نے کہا کہ پاکستان شمالی سرحدوں (چین سے) پر بڑھنے والے کسی بھی خطرے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور ہمارے لیے پریشانی پیدا کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چین کیساتھ سرحد پر صورتحال کشیدہ اور خطرناک ہے : بھارتی آرمی چیف
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق بھارت نے غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر کے لداخ کو وفاقی سرزمین قرار دیا ہے اور 5 اگست 2019 میں اسے مقبوضہ وادی سے علیحدہ کردیا۔ چین اس اقدام کی شدید مذمت کرنے والے ممالک میں شامل تھا جس نے اسے سلامتی کونسل سمیت بین الاقوامی فورمز پر اٹھایا۔
کچھ بھارتی اور چینی سٹریٹجک ماہرین کے مطابق بھارت کے اس اقدام نے چین کے ساتھ موجود تناؤ میں بے پناہ اضافہ کیا جس کے نتیجے میں جون کا سرحدی تصادم ہوا۔
دفاعی تجزیہ کار اور ماہر چینی امور پروین سوہنی نے کہا کہ ہم ایک انتہائی مشکل مرحلے میں داخل ہورہے ہیں۔ دونوں ممالک جنگ سے بچنا چاہتے ہیں لیکن اگر کسی جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو پاکستان کشمیر کو گھیرے میں لے لے گا۔ یہ کشمکش تین محاذوں پر پھیل جائے گی۔