مقبوضہ بیت المقدس: (ویب ڈیسک) ظالم اسرائیل نے غزہ کی محصور پٹی کے مختلف علا قوں پر فضائی حملوں اور گولہ بارود برسانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، شہداء کی تعداد 123 ہو گئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسز اور حماس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ عید الفطر کے دوسرے اور مجموعی طور پر پانچویں روز میں داخل ہوگیا لیکن اسکے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
فلسطینی طبی حکام کے مطابق اب تک صہیونی فوج کے حملوں کے نتیجے میں 123 افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں 31 بچے اور 19 خواتین شامل ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 900 سے زائد ہو گئی ہے۔ حماس کے حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں ایک فوجی سمیت 8 افراد جہنم واصل ہو چکے ہیں جن میں ایک بھارتی خاتون بھی شامل ہیں۔
جب اسرائیل نے بدھ کی رات کو غزہ پر فضائی حملے شروع کیے تو حریف یہودی اور اسرائیل میں بسنے والے عرب باشندوں نے ملک کے مختلف شہروں میں کاروبار، کاروں اور لوگوں پر حملے شروع کر دیے۔
اسرائیل کی اندرونی صورتحال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلیوں کی طرف سے ملک میں بسنے والے عرب شہریوں اور عربوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر تشدد کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔
علاوہ ازیں 3 راکٹس لبنان کی سرزمین سے بھی فائر کیے گئے جو بحیرہ روم میں گرے، اسرائیل کی سخت حریف تنظیم حزب اللہ سے متعلق کہا جا رہا ہے یہ حملے اس نے کیے ہیں۔
دوسری طرف امریکا کا ظالم اسرائیل کی طرف جھکاؤ کے باعث نہتے فلسطینیوں پر حملوں کےخلاف سلامتی کونسل کا اجلاس امریکی مخالفت کے باعث منسوخ کر دیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس اتوار کو طلب کیا تھا جبکہ عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فوری طور پر جنگ بندی پر زور دیا ہے۔
ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ پہلے ہی بہت سے معصوم شہری اپنی جان گنوا چکے ہیں اور اس تنازع کی وجہ سے پورے خطے میں انتہا پسندی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
امریکی سیکریٹری خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا ہے کہ واشنگٹن کو اسرائیل کی گلیوں میں ہونے والے تشدد پر سخت تشویش ہے جبکہ محکمہ خارجہ نے اپنے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کا سفر نہ کریں۔ مسلح تصادم اور خانہ جنگی کی وجہ سے اسرائیل کے سفر پر نظر ثانی کریں۔ مظاہروں اور تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب برٹش ائیرویز، ورجن اور لفتھانسا سمیت کئی بین الاقوامی ائیر لائنز نے اسرائیل کے لیے اپنی پروازیں بھی منسوخ کر دیں ہیں۔
تنازع ہے کیا؟
خیال رہے کہ رمضان کے آغاز سے ہی مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جبکہ اس دوران دنیا کے 3 بڑے مذاہب کے لیے انتہائی مقدس شہر میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس پر پاکستان نے شدید مذمت بھی کی ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس میں جمعہ (7 مئی) سے جاری پرتشدد کارروائیاں سال 2017 کے بعد بدترین ہیں جس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے شیخ جراح کے علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی۔
یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ایک طویل عرصے سے جاری قانونی کیس میں متعدد فلسطینی خاندان کو بے دخل کیا گیا ہے، اس کیس میں فلسطینیوں کی جانب سے دائر اپیل پر پیر (10 مئی) کو سماعت ہونی تھی جسے وزارت انصاف نے کشیدگی کے باعث مؤخر کردیا تھا۔
اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر حالیہ حملے 7 مئی کی شب سے جاری ہیں جب فلسطینی شہری مسجد الاقصیٰ میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کی عبادات میں مصروف تھے اور اسرائیلی فورسز کے حملے میں 205 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔
8 مئی کو مسجدالاقصیٰ میں دوبارہ عبادت کی گئی لیکن فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی فورسز نے پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 121 فلسطینی زخمی ہوئے، ان میں سے اکثر پر ربڑ کی گولیاں اور گرنیڈز برسائے گئے تھے جبکہ اسرائیلی فورسز کے مطابق ان کے 17 اہلکار زخمی ہوئے۔
9 مئی کو بھی بیت المقدس میں مسجد الاقصٰی کے قریب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فورسز کی پُر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے۔
10 مئی کی صبح اسرائیلی فورسز نے ایک مرتبہ پھر مسجد الاقصیٰ کے قریب پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 395 فلسطینی زخمی ہوئے تھے جن میں سے 200 سے زائد کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں 300 فلسطینی شہریوں کے زخمی ہونے کے بعد حماس نے اسرائیل میں درجنوں راکٹس فائر کیے تھے جس میں ایک بیرج بھی شامل تھا جس نے بیت المقدس سے کہیں دور فضائی حملوں کے سائرن بند کردیے تھے۔ اسرائیلی راکٹ حملوں کو جواز بنا کر جنگی طیاروں سے غزہ پر حملہ کیا تھا جسکے نتیجے میں حماس کے کمانڈر سمیت 25 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
11 مئی کی شب بھی اسرائیلی فضائیہ نے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں کو جواز بنا کر غزہ میں بمباری کی جس کے نتیجے میں 13 بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 43 تک پہنچ گئی، یہ راکٹ حملے بھی حماس کی جانب سے کیے گئے تھے جس میں 5 اسرائیلیوں کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔
غزہ کی وزارت صحت نے 12 مئی کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 48 ہوگئی ہے جن میں 14 بچے شامل ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے زائد ہوگئی ہے۔
دوسری جانب 6 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے تھے جبکہ غزہ سے تقریباً 1500 راکٹ فائر کیے گئے اور اسرائیل میں مختلف مقامات نشانہ بنائے گئے۔
اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق 7 سے 10 مئی تک مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں میں ایک ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے تھے۔
اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے عید الفطر کے روز بھی غزہ میں بلند و بالا عمارتوں اور دیگر مقامات پر مزید فضائی حملے کیے، جس کے نتیجے میں پیر سے اب تک جاں بحق افراد کی تعداد 103 تک پہنچ گئی جس میں 24 بچے بھی شامل ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں اور حماس کے راکٹ کی وجہ سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال وسیع پیمانے پر جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے ۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر پرتشدد کارروائیوں کے بعد عالمی برداری کی جانب سے ان حملوں کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔