لندن: (ویب ڈیسک) برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑی تو طالبان کے ساتھ ملکر بھی کام کرینگے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ میں اپنے لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ افغانستان کا حل تلاش کرنے کے لیے ہماری سیاسی اور سفارتی کوششیں جاری رہیں گی، جس میں ضرورت پڑنے پر طالبان کے ساتھ کام کرنا بھی ہے۔
انہوں نے اس موقع پر اپنے وزیرِ خارجہ ڈومینیک راب کا دفاع بھی کیا جو افغان صورتحال سے نمٹنے کے معاملے پر تنقید کی زد میں ہیں۔
اس سے قبل بورس جانسن کہہ چکے ہیں کہ وہ طالبان کو اُن کے الفاظ نہیں بلکہ اقدامات سے پرکھیں گے۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں اب بھی وزیرِ خارجہ ڈومینیک راب پر اعتماد ہے تو اس پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ جی ہاں بالکل۔
دوسری طرف روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ دوسرے ممالک کو افغانستان پر مرضی مسلط نہیں کرنی چاہیے اور حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے افغانستان کے بڑے حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق وہ ماسکو میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے ساتھ مذاکرات کے بعد میڈیا سے بات کر رہے تھے۔
پیوٹن نے اُمید کا اظہار کیا کہ طالبان اپنے وعدے پورے کریں گے اور یہ اہم ہے کہ دہشتگردوں کو افغانستان سے نکل کر خطے کے دوسرے ممالک میں پھیلنے سے روکا جائے۔ باہر سے بیٹھ کر اجنبی اقدار مسلّط کرنے اور اُن ممالک کے لیے اجنبی ماڈل کی جمہوریت تیار کرنے کی غیر ذمہ دارانہ پالیسی کو رکنا چاہیے جس میں تاریخی، قومی اور مذہبی روایات کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا۔
ان کاکہنا تھا کہ ہم افغانستان کو جانتے ہیں، ہم اُن لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہیں، اور ہم نے سیکھا ہے کہ یہ ملک کیسے کام کرتا ہے اور اس کی روایات کے برعکس سیاسی اور سماجی نظام اس پر نافذ کرنا کتنا نقصاندہ ہو سکتا ہے۔ ایسے کوئی بھی سیاسی اور سماجی تجربے ماضی میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں اور اس سے صرف ریاستوں کی بربادی اور اُن کے اپنے سیاسی اور سماجی نظام کی تباہی ہوئی ہے۔ طالبان نے جنگ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے شہریوں اور سفارتکاروں کی سلامتی کی یقین دہانی کروائی ہے اور اُمید ہے کہ اس سب پر عمل ہوگا۔