ماسکو: (ویب ڈیسک) روس نے یورپی یونین کی جانب سے عائد کردہ تیل کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل کو سختی سے مسترد کردیاہے۔
روس کی وزارت خارجہ کے افسر میخائل الیانوف نے خبردار کیا کہ ماسکو کی جانب سے مسترد کردہ قیمتوں کی حد کی وجہ سے یورپ کو تیل کے بغیر رہنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ماسکو نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ وہ ان ممالک کو تیل فراہم نہیں کرے گا جو مارکیٹ کی قیمتوں میں کمی کی حمایت کرتے ہیں۔ بہت جلد یورپی یونین روس پر تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگائے گی۔
ترجمان کریملن
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ روس G7 اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے روسی تیل پر عائد کردہ تیل کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل کو "قبول نہیں کرے گا"۔ صدر پیوٹن مقررہ وقت پر مشرقی یوکرین کا دورہ کریں گے۔
جی سیون
اس سے قبل یورپی یونین کے بعد جی سیون ممالک اور آسٹریلیا نے بھی روسی تیل کی قیمتیں 60 ڈالر فی بیرل تک محدود رکھنے پر اتفاق کرلیا۔
جی سیون اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام سے یوکرین پر روسی جارحیت کم کرنے میں مدد ملے گی۔
رپورٹ کے مطابق روس اپنی تیل کی آمدن کا زیادہ حصہ یوکرین جنگ میں استعمال کررہا ہے۔جس کوروکنے کےلئے یورپی ممالک پوری کوششوں میں مصروف ہیں۔
فرانسیسی صدر
فرانسیسی صدر میکرون کا کہنا ہے کہ یورپ کو اپنے مستقبل کے حفاظتی ڈھانچے کو تیار کرنے کی ضرورت ہے امن مذاکرات کے لیے سلامتی کے حوالے سے پوٹن کے خوف کو دور کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغرب کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر صدر پیوٹن یوکرین کی جنگ پر مذاکرات پر رضامند ہو جائیں تو روس کے سکیورٹی خدشات کو کیسے دور کیا جائے۔
روس کے حملے جاری
دوسری جانب یوکرین کی مسلح افواج کے جنرل سٹاف کے مطابق روسی افواج نے گزشتہ دنوں ڈونیٹسک اور لوہانسک کے علاقوں میں شہری انفراسٹرکچر پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نےکہا کہ روس نے یوکرین کے قصبوں اور شہروں پر پانچ میزائل حملے، 27 فضائی حملے اور 44 راکٹ لانچر حملے کیے ہیں۔ دونیتسک اوبلاست میں سولیدار، اوپٹنے، نیویلسک، کراسنوہریوکا، اور مارینکا کے ساتھ ساتھ لوہانسک اوبلاست میں چیروونوپوپیوکا کو نشانہ بنایا گیا۔