امریکا، جاپان اور جنوبی کوریا کی شمالی کوریا کے میزائل تجربے کی مذمت

Published On 15 July,2023 06:37 am

واشنگٹن : ( ویب ڈیسک ) امریکا ، جنوبی کوریا اور جاپان نے شمالی کوریا کے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) کے تجربے کی مذمت کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی واضح اور صریح خلاف ورزی قرار دے دیا۔

خیال رہے کہ شمالی کوریا نے بدھ کے روز ICBM میزائل کا تجربہ کیا تھا جو جزیرہ نما کوریا اور جاپان کے درمیان پانیوں میں گرا، شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد یہ تین ماہ میں اس طرح کا پہلا میزائل تجربہ تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا، جنوبی کوریا اور جاپان نے مشترکہ طور پر شمالی کوریا کی جانب سے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) کے تجربے کی مذمت کرتے ہوئے پیانگ یانگ کے خلاف پابندیاں سخت کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

ایک مشترکہ بیان میں تینوں اتحادیوں نے کہا کہ وہ شمالی کوریا کی بیرون ملک کارکنوں اور بدنیتی پر مبنی سائبر سرگرمیوں کے ذریعے غیر قانونی آمدنی پیدا کرنے کو روکنے کے لیے اقدامات کریں گے۔

امریکا نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جنوبی کوریا اور جاپان کے دفاع کے لیے اس کے وعدے فولادی طور پر پوشیدہ ہیں اور اسے ایٹمی سمیت تمام صلاحیتوں کی حمایت حاصل ہے۔

اس سے قبل جمعہ کے روز امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے انڈونیشیا میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے سربراہی اجلاس کے موقع پر اپنے جاپانی اور جنوبی کوریائی ہم منصبوں سے ملاقات کی۔

دو دن قبل شمالی کوریا نے جزیرہ نما کوریا کے قریب جوہری آبدوزوں کی تعیناتی کے امریکی منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ یہ اقدام عملی طور پر جوہری تنازع کے بدترین بحران کو ہوا دے سکتا ہے۔

جمعرات کو شمالی کوریا کے اقوام متحدہ کے سفیر کم سونگ نے سلامتی کونسل کو بتایا تھا کہ ICBM کی لانچنگ کا مقصد دشمن قوتوں کی خطرناک فوجی چالوں کو روکنا اور ملک کی سلامتی کا تحفظ کرنا ہے۔

گزشتہ روز جاری کئے گئے بیان میں امریکا، جنوبی کوریا اور جاپان نے اس لانچنگ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔

تینوں ممالک نے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی واضح اور صریح خلاف ورزی ہے اور جزیرہ نما کوریا اور اس سے باہر کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

رپورٹس کے مطابق شمالی کوریا گزشتہ دو سالوں سے اپنے میزائل تجربات میں اضافہ کر رہا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دور حکومت میں اپنے شمالی کوریا کے ہم منصب کم جونگ اُن سے براہ راست بات چیت میں مصروف رہے لیکن موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی ملاقاتیں رک گئیں۔

شمالی کوریا نے 2006 میں اس طرح کے ٹیسٹ پر بین الاقوامی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا پہلا جوہری ہتھیار کا تجربہ کیا تھا، اس کے بعد سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر متعدد قراردادیں منظور کیں جن میں اس کے جوہری پروگرام پر  پابندیاں عائد کی گئیں۔

گزشتہ سال روس اور چین نے یہ دلیل دیتے ہوئے شمالی کوریا پر مزید جرمانے عائد کرنے کی سلامتی کونسل کی تجویز کو ویٹو کر دیا تھا کہ پابندیاں ملک کے جوہری اور میزائل پروگراموں کو روکنے میں موثر نہیں ہیں۔