جوہانسبرگ : ( ویب ڈیسک ) جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے کہا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے اگلے ماہ جوہانسبرگ کے دورے پر انہیں گرفتار کرنے کی کوئی بھی کوشش روس کے ساتھ اعلان جنگ ہو گی۔
گزشتہ روز جاری ہونے والے عدالتی کاغذات کے مطابق جنوبی افریقی صدر نے کہا کہ روس نے واضح کر دیا ہے کہ اس کے موجودہ صدر کو گرفتار کرنا اعلان جنگ ہو گا۔
واضح رہے کہ پیوٹن کو اگلے ماہ جوہانسبرگ میں برکس سربراہی اجلاس میں مدعو کیا گیا ہے لیکن وہ انٹرنیشنل کریمینل کورٹ ( آئی سی سی ) کی جانب سے جاری کردہ گرفتاری کے وارنٹ کا ہدف ہیں اور انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے رکن کی حیثیت سے پریٹوریا سے وارنٹ پر عمل درآمد کی توقع کی جائے گی۔
خیال رہے کہ جنوبی افریقہ کی حزب اختلاف کی سرکردہ جماعت ڈیموکریٹک الائنس ( ڈی اے ) اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ روسی صدر کو ملک میں قدم رکھنے پر پکڑ کر آئی سی سی کے حوالے کر دیا جائے اور ڈی اے کی جانب سے اس حوالے سے عدالت میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔
اپنے ردعمل میں رامافوسا نے ڈی اے کی درخواست کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا اور کہا کہ قومی سلامتی خطرے میں ہے۔
صدر کے مطابق جنوبی افریقہ اس حقیقت کی بنیاد پر استثنیٰ کا مطالبہ کر رہا ہے کہ آئی سی سی کے قوانین کے تحت گرفتاری سے ریاست کی سلامتی اور امن و امان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس کے ساتھ جنگ کا خطرہ مول لینا ہمارے آئین سے متصادم ، ملکی حفاظت اور انکے فرض کیخلاف ہو گا۔
آئی سی سی کے معاہدے میں کہا گیا ہے کہ رکن ملک کو عدالت سے مشورہ کرنا چاہیے جب وہ ایسے مسائل کی نشاندہی کرے جو درخواست پر عمل درآمد میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
جنوبی افریقہ برکس گروپ کا موجودہ سربراہ ہے جس میں برازیل، چائنہ ، روس اور بھارت جیسے بڑے معاشی ہیوی ویٹ شامل ہیں۔
جنوبی افریقہ کے نائب صدر پال ماشیٹائل نے مقامی میڈیا کے ساتھ حالیہ انٹرویوز میں کہا ہے کہ حکومت پیوٹن کو نہ آنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اب تک اس معاملے میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔
جنوبی افریقہ کے امریکا اور یورپ کے ساتھ مضبوط اقتصادی اور تجارتی تعلقات ہیں لیکن روس کے ساتھ تجارت بہت کم ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ رامافوسا نے یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کیلئے کیف اور سینٹ پیٹرزبرگ میں ہونے والی بات چیت کے لیے مصر، سینیگال اور زیمبیا کے نمائندوں سمیت سات ملکوں کے افریقی امن وفد کی قیادت بھی کی تھی۔