تل ابیب : (ویب ڈیسک ) اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر نے وائٹ ہاؤس سے درخواست کی ہے کہ مشاورت کے لیے اسرائیل کے اعلیٰ سطح کے وفد کے لیے اگلے ہی ہفتے میں فوری وقت دیا جائے۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل نے پیر کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی قرارداد روکنے کے لیے امریکہ کے ویٹو استعمال نہ کرنے پر بطور احتجاج و ناراضگی اپنے اعلیٰ وفد کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا تھا۔
وزیر اعظم نیتن یاہو نے یہ اعلان کرتے ہوئے امریکہ پر الزام بھی لگایا تھا کہ امریکہ نے اسرائیل کی غزہ جنگ کے بارے میں اپنی پالیسی سے پسپائی اختیار کر لی ہے۔
اس غصے کو جواز بناتے ہوئے نیتن یاہو نے اعلیٰ سطح کا وفد امریکہ بھیجنے کا پہلے سے موجود فیصلہ واپس لے لیا تھا، لیکن گزشتہ روز ہی اسرائیلی وزیر اعظم نے دوبارہ اپنے سب سے بڑے اتحادی امریکہ سے رجوع کا فیصلہ کرتے ہوئے ناراضگی کا تاثر ختم کر دیاہے۔
اس بارے میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرین جین پیئیر نےرپورٹرز کو بتایا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے اسرائیلی وفد کے لیے نیا شیڈول بنانے پر اتفاق کیا ہے لہذا ہم نے نئے شیڈول کے لیے مل کر کام شروع کر دیا ہے تاکہ دونوں کے موزوں وقت طے ہو سکے ۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کی رفح میں کارروائیوں سے زمینی حملوں کا خدشہ
عرب میڈیا کا بتانا ہے کہ ایک امریکی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا اسرائیلی وفد کی اگلے ہفتے کے شروع میں ہی آمد ہو سکتی ہے، اس سلسلے میں وقت طے کیا جارہا ہے۔ تاہم اس بارے میں نیتن یاہو کے دفتر نے ابھی کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی وفد جس کی امریکہ روانگی جلد ممکن بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس وفد کی قیادت اسرائیلی سٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈیرمر اور قومی سلامتی کے مشیر ذاچی ہنگبئی کریں گے، مذاکرات کا اہم ترین موضوع 10 لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھروں کی پناہ گاہ رفح پر اسرائیلی حملے کی حکمت عملی اور تعاون پر اتفاق ہے تاکہ دونوں اتحادیوں کے درمیان تعاون میں کمی کا اندیشہ نہ رہے۔
واضح رہے امریکی صدر جوبائیڈن جو ماہ نومبر میں دوبارہ صدارتی امیدوار ہیں انہیں صرف اپنے اتحادیوں کے دباؤ کا سامنا نہیں ہے بلکہ امریکہ میں اپنی ہی جماعت ڈیموکریٹ کے ممبران اور حامیوں کی طرف سے بھی غزہ میں جنگی پالیسی کے امور پر دباؤ کا سامنا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے اسی دوران امریکہ میں اعلیٰ امریکی حکام کے ساتھ وسیع تبادلہ خیال کیا ہے، اس دوران یہ موضوع بھی اہم رہا کہ کس طرح دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان مقامی چیلنجوں کے باوجود تعلقات میں بہتری رہے اور بیانات سے دو طرفہ درجہ حرارت میں اضافہ نہ ہو۔
یادرہے کہ کچھ روز قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 6 ماہ کے دوران پہلی بار ایک جنگ بندی قرارداد منظور کی جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔