لاہور: (اسما رفیع ) پاکستان سمیت دنیا بھر میں ورلڈنیوز ڈے منایا جارہا ہے ، یہ دن صحافت کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی ایک عالمی مہم ہے ۔
28 ستمبر 2024 کو دی ورلڈ ایڈیٹرزفورم اور کینیڈین جرنلزم فاؤنڈیشن کی جانب سے ورلڈ نیوز ڈے منایا جاتا ہے، جس کا مقصد دنیا بھر کی 500 سے زائد نیوز آرگنائزیشنز کو متحد کرنا ہے اور اس پیغام کو دنیاکے کونے کونے میں پہنچانا ہے کہ مستقبل کے بارے میں باخبر فیصلے کرنا چاہتے ہیں تو معتبر صحافت بے حد اہم ہے۔
آج کے دن دنیا بھر کے ہزاروں ذرائع ابلاغ کے ادارے معتبر صحافت کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے ایک ہوتے ہیں ، ہم یہاں اس دن کی مناسبت سے جدید اور روایتی صحافت کے کچھ پہلوؤں کا بھی ذکر کریں گے۔
رواں برس اس دن کا موضوع ہے " سچ کا انتخاب کریں " جو غلط معلومات کے خلاف جنگ میں میڈیا کے ڈٹے رہنے اور اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
اس سال یہ موضوع ساؤتھ افریقہ کے اخبار Maverick کے پراجیکٹ کونٹینوم کے تحت ڈیزائن کیا گیا ہے جو کہ اس بات کی یاددہانی ہے کہ موجودہ حالات میں شفافیت ، غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کس قدر مشکل امر ہے خاص طور پر اب جب درست اور غلط معلومات کو لے کر میڈیا پر اعتماد میں کمی آئی ہے ۔
ایک وقت تھا جب دن کا آغاز گھر کی دہلیز پر پھینکے گئے اخبار سے ہوتا تھا لیکن وقت گزرتے اس اخبار کی جگہ سائیڈ ٹیبل پر پڑے موبائل نے لے لی ہے جو صرف ایک کلک پر آپ کو دنیاجہاں کی معلومات فراہم کردیتا ہے ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے معلومات کے اشتراک کو قدرے جمہوری بنا دیا ہے کیونکہ اب ہر شخص کو مواصلات اور انٹرنیٹ کنکشن تک رسائی حاصل ہے جو عالمی رائے کو تشکیل دیتی ہے۔
سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز اب ہر حوالے سے معلومات کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ فراہم کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے misinformation اور disinformation تیزی سے پھیلتی ہیں، ان دونوں کے درمیان باریک سا فرق ہے disinformation یعنی ایسی معلومات جو جان بوجھ کر کسی کو دھوکہ دینے کے مقصد سے پھیلائی جائے جبکہ misinformation جو بنا کسی غرض، اتفاقیہ پھیل جائے اور ان دونوں کی بدولت اب سچ اور من گھڑت کہانی میں فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
بے یقینی کے اس ڈیجیٹل دور میں روایتی میڈیا ذمہ داری سے اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے اگرچہ خبریں شائع کرنے والے بعض اوقات اس رفتار کا ساتھ نہیں دے پاتے کیونکہ وہ بے حد تیزی سے پھیلتی ہیں، لیکن وہ قارئین کے لیے حقائق کو جھوٹ سے الگ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بے پناہ معلومات کے نئے ذرائع دستیاب ہونے سےخبر کی تلاش آسان ہے اور یہ خبر باآسانی کسی کی ذاتی ترجیحات اور تعصبات کو بڑی آسانی سے نمایاں کردیتی ہیں ۔
دوسری طرف غیر جانبدارانہ رپورٹنگ اور حقائق پر مبنی معلومات کی فراہمی کیلئے نیوز رومز کو بھی خود کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ قارئین کا اعتمادان پر بحال ہوسکے۔
موجودہ دور میں رپورٹرز اور ایڈیٹرز پر اکثر رپورٹنگ میں تعصب یا غیر منصفانہ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن اب اس الزام کو غلط ثابت کرنے کیلئے ایک رپورٹر یا ایڈیٹر کو زیادہ کھل کر عوام کے سامنے پیش کرنا پڑے گا ۔
اگرچہ اس سے قبل بھی متعصبانہ رپورٹنگ پر بات کی جاتی تھی لیکن تب شاید معلومات کی رسائی اتنی آسان نہ تھی اور نہ ہی کھلے بندوں ترجیحات کا اظہار کیا جاتا تھا۔
یہاں ہم آپ کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایک رپورٹر یا ایڈیٹر کو کیا کرنا چاہیے کہ اس پر تعصب یا ذاتی پسند یا ناپسند کی چھاپ نہ لگے ، تو اس کیلئے ضروری ہے کہ انہیں اپنے طرز عمل کے بارے میں شفاف ہونا چاہیے، اعلیٰ اخلاقی معیارات کو برقرار رکھنا چاہیے، اور جب بھی ضرورت ہو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی غلطیوں کو درست کرنا چاہیے۔
ایک صحافی خود کو ہمیشہ جوابدہ رکھتا ہے ، انہیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ صحافت اس کا مرکز ہے، ناانصافی کو دور کرنا اور بے آوازوں کی آواز بلند کرنا اس کا مقصد ہے، ایسے وقت میں جب بہت سے نوجوان قارئین اپنی خبروں کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کر رہے ہیں، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں اس بارے میں آگاہ کریں کہ وہ قابل اعتماد صحافت اور غلط معلومات کے درمیان کس طرح بہتر طریقے سے فرق کر سکتے ہیں۔
یہ ایک ایسا دور ہے جہاں جھوٹ پلک جھپکتے ہی پوری دنیا میں ہلچل مچادیتا ہے وہاں نوجوانوں کو صحیح اور غلط میں فرق سکھانے سے اس مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک صحافی کیلئے یہ کٹھن وقت ہے کیونکہ آمدنی کے وہ ذرائع جنہوں نے نیوز پبلشرز کو برقرار رکھا، ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں متروک ہو چکے ہیں تاہم، اس سے پبلشرز یا صحافیوں کو اپنے قارئین کے تئیں ذمہ داریوں سے توجہ نہیں ہٹانی چاہیے۔
قارئین کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اخلاقی، قابل بھروسہ اور دیانتدارانہ صحافت ان مشکل وقتوں کو بہتر دنوں تک دیکھنے میں ان کی مدد کرے گی، انہیں سنسنی خیزی پر سچ کو ترجیح دینی چاہیے،ہر کہانی کو شواہد سے پرکھنا چاہیے۔
آج، پہلے سے کہیں زیادہ ہمیں صحافیوں اور خبر رساں اداروں کی حمایت کی ضرورت ہے جو ایمانداری کے ساتھ عوام کو آگاہ کرنے کے اپنے مشن میں ثابت قدم ہیں۔