غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی تیاری، رفح کے ملبے پر کیمپ قائم کرنے کا حکم

Published On 08 July,2025 02:30 pm

مقبوضہ بیت المقدس: (ویب ڈیسک) اسرائیل کے وزیر دفاع نے غزہ کے تمام فلسطینیوں کو جبری بے دخل کر کے رفح کے ملبے پر قائم کیمپ میں زبردستی منتقل کرنے کا منصوبہ پیش کر دیا۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی فوج کو رفح شہر کے ملبے پر ایک کیمپ قائم کرنے کا حکم دیا ہے، انہوں نے اس کیمپ کو ’’انسانی ہمدردی کا شہر‘‘ کہا ہے۔

کاٹز نے اسرائیلی صحافیوں کو بریفنگ میں بتایا کہ فلسطینیوں کو کیمپ میں داخل ہونے سے پہلے سیکیورٹی سکریننگ سے گزرنا ہوگا اور ایک بار اندر جانے کے بعد انہیں کیمپ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اسرائیلی فورسز اس جگہ کے اردگرد کنٹرول سنبھالیں گی اور ابتدائی طور پر تقریباً 6 لاکھ فلسطینیوں کو اس علاقے میں منتقل کیا جائے گا، جن میں زیادہ تر وہ لوگ ہوں گے، جو اس وقت المواسی کے علاقے میں بے گھر ہیں۔

اسرائیل کاٹز کے بقول بتدریج پورے غزہ کی آبادی کو وہاں منتقل کیا جائے گا اور اسرائیل کا مقصد ہجرت کے منصوبے پر عمل درآمد کرنا ہے، اور اس پر عملدرآمد ہو کر رہے گا۔

یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بین الاقوامی سطح پر غزہ میں انسانی بحران اور رفح میں بڑے پیمانے پر تباہی پر شدید تشویش پائی جاتی ہے، ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ جبری بے دخلی اور فوجی کنٹرول میں لوگوں کو مستقل طور پر کیمپوں میں رکھنے کے مترادف ہو سکتا ہے، جہاں ان کی آزادی یا واپسی کے امکانات غیر واضح ہیں۔

یاد رہے کہ رواں سال کے آغاز میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ تجویز دی تھی کہ بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو غزہ سے نکل جانا چاہئے تاکہ علاقے کو صاف کیا جا سکے، اسرائیلی سیاستدانوں بشمول وزیراعظم نیتن یاہو نے جبری بے دخلی کے منصوبے کو جوش و خروش سے اپنایا اور اکثر اسے امریکی منصوبے کے طور پر پیش کیا ہے۔

اسرائیلی انسانی حقوق کے معروف وکیل مائیکل سفارد نے کہا کہ کاٹز کا یہ منصوبہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے، یہ اس بیان کی بھی نفی کرتا ہے جو کچھ ہی گھنٹے قبل اسرائیلی فوج کے سربراہ کے دفتر نے جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطینیوں کو صرف ان کی حفاظت کے لیے غزہ کے اندر منتقل کیا جا رہا ہے۔

سفارد نے کہا کہ کاٹز نے انسانیت کے خلاف ایک جرم کا عملی منصوبہ پیش کیا ہے، جب آپ کسی کو اس کے وطن سے زبردستی نکالتے ہیں تو وہ جنگی جرم ہوتا ہے، اور اگر یہ بڑے پیمانے پر کیا جائے جیسا کہ اس منصوبے میں ہے، تو یہ انسانیت کے خلاف جرم بن جاتا ہے۔

اسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ انسانی ہمدردی کے شہر پر کام جنگ بندی کے دوران شروع کیا جا سکتا ہے، نیتن یاہو ان ملکوں کی تلاش میں ہیں جو فلسطینیوں کو اپنانے پر راضی ہوں۔

ادھر نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور اسرائیل دیگر ملکوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ فلسطینیوں کو بہتر مستقبل فراہم کیا جا سکے، اگر لوگ رہنا چاہتے ہیں تو رہ سکتے ہیں، لیکن اگر وہ جانا چاہتے ہیں تو انہیں جانے کی اجازت ہونی چاہئے۔

اسرائیلی وزیر خزانہ بیزل اسموٹریچ بھی غزہ میں نئی اسرائیلی بستیاں قائم کرنے کے حامی رہے ہیں۔

سفارد نے 3 ریزرو فوجیوں کی نمائندگی کی، جنہوں نے اسرائیلی عدالت میں درخواست دائر کی کہ فوج غزہ کی شہری آبادی کو اکٹھا کرنے اور منتقل کرنے کے احکامات واپس لے اور فلسطینیوں کی غزہ سے بے دخلی کے کسی بھی منصوبے پر پابندی عائد کرے۔

ہولوکاسٹ کے ماہر اور یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے پروفیسر آموس گولڈبرگ نے کہا کہ کاٹز کا رفتح میں نیا شہر یا کیمپ نہ تو انسانی ہمدردی پر مبنی ہے، نہ ہی کوئی شہر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر وہ ہوتا ہے جہاں روزگار، آمدنی، تعلقات بنانے اور نقل و حرکت کی آزادی ہو، وہاں ہسپتال، سکول، یونیورسٹیاں اور دفاتر ہوتے ہیں، یہ سب اس منصوبے میں نہیں ہے، یہ جگہ قابل رہائش نہیں ہو گی۔