ہیگ: (ویب ڈیسک) اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ عدالت نے ایک تاریخی فیصلے میں ممالک کے لیے آب و ہوا کی تبدیلی پر ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔
نیدرلینڈز کے شہر ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف کے جج نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب کون ہے اس کا تعین کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔
اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کسی بھی فریق کو مجبور نہیں کیا جا سکتا لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے وسیع نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، اس فیصلے کو اُن ممالک کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے کہ جو موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے دوچار ہیں، جو اس مسئلے سے نمٹنے میں عالمی پیش رفت نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار کرنے کے بعد عدالت میں آئے تھے۔
عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جانے والا یہ غیر معمولی مقدمہ بحرالکاہل کے نشیبی جزیروں سے تعلق رکھنے والے نوجوان طالب علموں کے ایک گروپ کی جانب سے سنہ 2019 کیا گیا تھا۔
ان طالب علموں میں سے ایک، ٹونگا سے تعلق رکھنے والے سیوسیوا ویکونے فیصلہ سننے کے لئے ہیگ میں تھے، ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے احساسات کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا، یہ ایک ایسی کامیابی ہے کہ جس پر ہمیں فخر ہے۔
بحرالکاہل کے جزیرے وانواتو سے تعلق رکھنے والی فلورا وانو نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہم کس طرح زندگی گزار رہے ہیں، ایسے میں یہ ہمارا حق ہے کہ ہم صحت مند ماحول میں سانس لے سکیں اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکیں۔
آئی سی جے کو دنیا کی سب سے بڑی عدالت سمجھا جاتا ہے اور اس کا عالمی دائرہ اختیار ہے، وکلا کے مطابق اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کام آئندہ ہفتے سے شروع ہو جائے گا۔
بہت سے غریب ممالک نے مایوسی کی وجہ سے اس کیس کی حمایت کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک بڑھتے ہوئے مسئلے سے نمٹنے کے لیے موجودہ وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔