بنگلہ دیش کی بھارت نواز حسینہ واجد کو طلبہ کے قتل عام پر سزائے موت کا حکم

Published On 17 November,2025 01:00 pm

ڈھاکہ: (دنیا نیوز، ویب ڈیسک) بنگلہ دیش کی عدالت نے انسانیت کے خلاف جرائم کے کیس میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنا دی، شیخ حسینہ کے ساتھی سابق وزیر داخلہ اسد الزمان کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔

جسٹس غلام مرتضیٰ موجمدار کی سربراہی میں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے 3 رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا، ٹریبونل کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس شفیع العالم محمود اور جج محیط الحق انعام چوہدری شامل ہیں۔

ٹربیونل نے کئی ماہ کی سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں معزول وزیراعظم شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب اور پچھلے برس طلبہ کے احتجاج پر مہلک کریک ڈاؤن کا حکم جاری کرنے کا ذمہ دار بھی قرار دیا گیا ہے۔سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف دائر مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں انسانیت کے خلاف جرائم کا مجرم قرار دیا۔

ٹربیونل کی جانب سے شیخ حسینہ واجد کے خلاف مقدمات کا 453 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت کا حکم سنایا، شیخ حسینہ واجد کو ان کی غیر موجودگی میں سزا سنائی گئی ہے۔

عدالت نے فیصلہ دیا کہ شیخ حسینہ نے مظاہرین پر مہلک ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دی، حسینہ واجد نے بطور وزیراعظم مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا، حسینہ واجد کے حکم پر مظاہرین کے خلاف مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا، شیخ حسینہ نے طلبہ سے بات چیت کے بجائے طاقت کا استعمال کیا۔

شیخ حسینہ واجد کی ایک آڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں شیخ حسینہ کو متعلقہ حکام کو مہلک ہتھیاروں کے استعمال اور مظاہرین کو مارنے کا حکم دیتے ہوئے سنا گیا، اس آڈیو کی باقاعدہ تصدیق بھی کرائی گئی تھی۔

پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حسینہ واجد نے مظاہرین کے قتل کے لیے ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز کے استعمال کی اجازت دی، حسینہ واجد نے اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے مظاہرین کے خلاف لوگوں کو اکسایا۔

سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد پر انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ درج ہے، جس میں استغاثہ نے شیخ حسینہ کے لئے سزائے موت کی درخواست کی تھی، سماعت کے دوران عدالت مظاہروں کے دوران مارے جانے والوں کے لوحقین، وکلا اور بنگلہ دیش کے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی، لواحقین نے عدالتی فیصلہ پر تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ پچھلے برس 15 جولائی سے پانچ اگست کے درمیان حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں 1400افراد ہلاک اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے اور ان میں سے زیادہ تر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔

اس کے بعد حسینہ واجد اگست 2024 میں بنگلہ دیش سے فرار ہو کر انڈیا چلی گئی تھیں اور اب دہلی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔

سیاسی محرکات کی تردید

نوبیل انعام یافتہ محمد یونس میں کام کرنے والے عبوری حکومت کے ایک ترجمان نے مقدمے کے سیاسی محرکات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے شفاف طور پر کام کیا اور مبصرین کو اس کی دستاویز شائع کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ پر سے پابندی ہٹائے جانے کا کوئی منصوبہ زیرغور نہیں ہے، عبوری حکومت کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی، خصوصاً جلاوطن قیادت کی جانب سے کیے گئے اقدام کو انتہائی غیرذمہ دارانہ اور قابل مذمت سمجھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت عوامی لیگ کے لیے بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے دور میں کیے گئے انسانیت کے خلاف کیے گئے جرائم پر پشیمانی اور احتسابی عمل سے انکار کر رہی ہے جن میں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل کے تحت مقدمہ بھی شامل ہے۔

سخت سکیورٹی انتظامات

خصوصی ٹربیونل کے فیصلے سے قبل ہی مظاہرین کی ایک بڑی تعداد دھان منڈی 32 کے نزدیک جمع ہو گئے تھے جو معزول وزیر اعظم کے والد شیخ مجیب کا گھر ہے، یہ جگہ حالیہ مہینوں میں احتجاج کا ایک مرکز رہا ہے۔

پولیس کو ہجوم کو پیچھے ہٹانے کے لیے سٹن گرینیڈ استعمال کرنے پڑے، مظاہرین دو بلڈوزر بھی کر آئے تھے اور نعرے لگا رہے تھے ’فسطائیت کے اڈوں کو تباہ کرو۔‘

اس فیصلے کے موقع پر گزشتہ سال حکومت مخالف مظاہروں کے دوران مارے جانے والے افراد کے لواحقین بھی عدالت میں موجود ہیں، فیصلے کے بعد کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ڈھاکہ میں سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے ہیں، شہر کے مختلف علاقوں میں پولیس کے علاوہ ریپڈ ایکشن بٹالین اور بنگلہ دیش بارڈر گارڈ کے اہلکار بھی تعینات ہیں۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے مطابق گزشتہ سال موسم گرما میں مظاہروں کے دوران 1400افراد ہلاک ہوئے تھے، سابق وزیرِاعظم پر الزام ہے کہ وہ سینکڑوں مظاہرین کی ہلاکتوں کی ماسٹر مائنڈ ہیں، شیخ حسینہ واجد اور ان کی جماعت عوامی لیگ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

عدالت جو مرضی فیصلہ کرے مجھے پرواہ نہیں: حسینہ واجد

دوسری طرف بھارت میں پناہ لینے والی بنگلہ دیش کی معزول وزیراعظم حسینہ واجد نے کہا ہے کہ عدالت جو مرضی فیصلہ کرے مجھے پرواہ نہیں ہے، مجھ پر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹے ہیں، اللہ نے زندگی دی ہے اور وہی لے گا، میں بنگلہ دیشی عوام کے لیے کام جاری رکھوں گی۔

بھارت سے جاری بیان میں حسینہ واجد کا کہنا تھا کہ ہم یہ سب بھولیں گے نہیں، حساب لیں گے، والدین اور بہن بھائیوں کو کھو چکی ہوں، میرا گھر بھی جلا دیا گیا، پارٹی کارکن پریشان نہ ہوں، یہ وقت کی بات ہے، میں جانتی ہوں آپ تکلیف میں ہیں مگر ہم سب کچھ یاد رکھیں گے اور حساب ہوگا۔

دوسری طرف 78 سالہ شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ نے آج ملک بھر میں مکمل پہیہ جام ہڑتال کی کال دے رکھی ہے جس کی وجہ سے ڈھاکہ کی گلیاں اور سڑکیں خالی نظر آ رہی ہیں۔

اس سے پہلے حسینہ واجد کے مشیر اور صاحبزادے سجیب واجد نے امریکا میں بیٹھ کر دھمکی دی تھی کہ شیخ حسینہ واجد کے خلاف فیصلے سے ملک میں تشدد کی لہر ابھرے گی۔

حسینہ واجد کے امریکا مقیم بیٹے کا ردعمل

دوسری جانب حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ فیصلے کے خلاف تب تک اپیل نہیں کریں گے جب تک جمہوری حکومت جمہوری طور پر عوامی لیگ کی سمولیت سے حکومت نہیں سنبھال لیتی۔

ایک روز قبل ہی سجیب واجد نے خبردار کیا تھا کہ اگر عوامی لیگ پر سے پابندی نہ ہٹائی گئی تو عوامی لیگ کے حامی فروری میں الیکشن نہیں ہونے دیں گے اور احتجاج تشدد کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

طلبہ احتجاج کا پسِ منظر

یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں 1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دیے جانے کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے جن میں 200 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کو ختم کردیا تھا مگر طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو انصاف نہ ملنے تک احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور سول نافرمانی کی کال دی تھی۔

حکومت نے طلبہ سے بات کرنے کے بجائے طاقت کا بے جا استعمال کیا جس سے 1400 جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔

شیخ حسینہ کا اقتدار

شیخ حسینہ واجد 19 سالہ اقتدار کے نتیجے میں ملک کی طویل ترین وزیراعظم رہیں، وہ 2024 میں چوتھی مرتبہ بنگلا دیش کی وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں، ان پر سیاسی مخالفین کے خلاف اقدامات کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے اور ان کی حکومت نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر پابندی بھی لگائی تھی جسے عبوری حکومت میں عدالت نے ختم کر دیا تھا۔