لاہور: (دنیا نیوز) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بنیادی شرح سود میں 1.5 فیصد کا بڑا اضافہ کر دیا۔
دنیا نیوز کے مطابق اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی میں ریکارڈ اضافہ کیا، بنیادی شرح سود 1.5 فیصد اضافے کے بعد 10.75 فیصد سے بڑھ کر12.25 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق مارچ 2019 میں مہنگائی کی شرح 9.4 فیصد رہی۔ اپریل میں شرح 8.8 فیصد تھی۔ جولائی سے اپریل کے دوران مہنگائی کی شرح 7 فیصد رہی۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے سبب مہنگائی بڑھی۔ اجناس قیمتوں میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
دنیا نیوز کے مطابق جولائی تا مئی 2019ء حکومت نے مرکزی بینک سے 4 ہزار 800 ارب روپے قرضہ لیا جو گزشتہ سال کے مقابلے اڑھائی گنا زیادہ ہے، نئے نوٹوں کی چھپائی زرکے پھیلاو کا سبب بنی جو مہنگائی کی آگ کو بھڑکارہی ہے۔
سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ بجٹ خسارہ میں اضافے سے حکومت کا قرض کیلئے مرکزی بینک پر انحصار بڑھا ہے، جولائی تا مارچ 2019ء کے دوران رواں کھاتوں کا خسارہ 29 فیصد کم ہوا ہے۔ مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں رواں کھاتو ں کا خسارہ 9.6 ارب ڈالر رہا۔
مرکزی بینک کے مطابق خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں شرح سود سب دے زیادہ ہے۔ بھارت میں بنیادی شرح سود 6 فیصد، بنگلہ دیش میں 6.75 اور سری لنکا میں 8 فیصد ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافہ سے سب سے زیادہ نقصان حکومت کا ہوا ہے۔ اس کا مقصد مہنگائی کم کرنا ہوتا ہے۔ بنیادی شرح سود بڑھنے سے حکومت کے مقامی قرضوں میں 3 کھرب روپے (300 ارب روپے) کا اضافہ ہو جائے گا جبکہ گاڑیوں اور گھروں کی خریداری پر قرض لینا مہنگا پڑ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گورنر سٹیٹ بینک کی تقرری، پیپلز پارٹی کا بھرپور مخالفت کا فیصلہ
ماہرین کے مطابق بنیادی شرح سود بڑھانے سے گاڑیوں اور گھروں کی خریداری میں بھی کمی آئے گی۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس سے نئی سرمایہ کاری تعطل کا شکار ہو جائے گی۔