مظفرآباد : (اسلم میر) آزاد جموں و کشمیر کے نئے مالی سال 23-2022 کا 163 ارب سے زائد کا بجٹ پیش کر دیا گیا، بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کیلئے 15فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے ارکان اسمبلی کے لئے زیادہ ترقیاتی فنڈز نہ رکھنے پر بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔
بجٹ وزیر خزانہ عبد الماجد خان نے پیش کیا، بجٹ میں 1 کھرب 35 ارب 20 کروڑ روپے غیر ترقیاتی اخراجات جبکہ 28 ارب 50 کروڑ روپے ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ہیں، ترقیاتی بجٹ میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 2 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ عبد الماجد خان نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کیلئے 15فیصد اضافہ کی بھی تجویز ہے، ترقیاتی بجٹ میں صحت عامہ کے لیے 1 ارب80 کروڑ، تعلیم کے لئے 2 ارب 17 کروڑ اور مواصلات کے لیے 12ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
نئے مالی سال کے بجٹ میں فزیکل پلاننگ وہاﺅسنگ کے لئے 3 ارب 30 کروڑ مختص کرنے کی تجویز ہے، ریلیف و بحالیات کے لیے 1 ارب 14 کروڑ 91 لاکھ ، پنشن کے لیے 26 ارب، تعلقات عامہ کے لیے 23 کروڑ 17 لاکھ اور عدلیہ کے لیے 2 ارب 12 کروڑ 28 لاکھ مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
بجٹ میں داخلہ 7 ارب 25 کروڑ 8 لاکھ، جیل خانہ جات 25 کروڑ 1 لاکھ، شہری دفاع 30 کروڑ 38 لاکھ اور آرمڈ سروسز بورڈ کو 8 کروڑ 50 لاکھ ملیں گے، کمیونیکیشن اینڈ ورکس کے لیے 4 ارب 57 کروڑ، تعلیم کے لیے 3 ارب 23 کروڑ اور صحت عامہ کے لیے 11 ارب 87 کروڑ 34 لاکھ مختص کیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ کے مطابق سپورٹس یوتھ کلچر اینڈ ٹرانسپورٹ کو13کروڑ، مذہبی امور 21 کروڑ، سماجی بہبود و ترقی نسواں 61 کروڑ اور زراعت کو 85 کروڑ ملیں گے۔
سالانہ بجٹ میں امور حیوانات 78 کروڑ، خوراک 30 کروڑ، ریاستی تجارت 3 ارب 70 کروڑ اور جنگلات کے لیے 1 ارب 43 کروڑ مختص، برقیات 9 ارب 42 کروڑ، لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی 70 کروڑ اور انڈسٹریز کے لیے 24 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایوان کی تمام قائمہ کمیٹوں کو قواعد انظباط کار کے مغائر بنایا ہے، اپوزیشن کا موقف ہے کہ ایوان کی قائمہ کمیٹیوں میں پارلیمانی تناسب سے نمائندگی دی جاتی ہے جبکہ حکومت نے اپنے اراکین پر مشتمل قائمہ کمیٹیاں قائم کی ہیں
ایوان کی قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی وزیر نہیں کر سکتے، حکومت نے کمیٹیاں وزرا کی سربراہی میں بنائی ہیں جبکہ اراکین اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز مختص کرنے پر بھی تحفظات ہیں۔