کرکٹ کی تاریخ کے بہترین ایمپائرز

Last Updated On 16 November,2018 05:19 pm

لاہور: (دنیا میگزین) ہم ذیل میں اپنے قارئین کے لئے دنیائے کرکٹ کی تاریخ کے ان عظیم ایمپائروں کا تذکرہ کریں گے جن کی شاندار کارکردگی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔

1978ءمیں بھارت کی ٹیم ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کے دورے پر آئی۔ تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلی گئی جو پاکستان نے 2-0 سے جیت لی۔ بشن سنگھ بیدی بھارتی ٹیم کے کپتان تھے۔

انہوں نے پاکستانی ٹیم کی کھل کر تعریف کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایمپائرنگ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسی زمانے میں ٹیکنالوجی اتنی جدید نہیں تھی۔ کیمرے بھی تھوڑے تھے اور تھرڈ ایمپائر کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔

اس کے علاوہ بلے بازوں اور گیند بازوں کو نظرثانی (Review) کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔ اب تو کرکٹ کا کھیل اپنے قواعد و ضوابط اور جدید ٹیکنالوجی کے باعث مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔ بقول سنیل گواسکر اب تو کرکٹ کی کایا کلپ (Metamorphosis) ہو چکی ہے اور کھلاڑیوں کو وہ سہولتیں حاصل ہوچکی ہیں جن کے بارے میں اس وقت سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
1979-80ء میں پاکستانی ٹیم بھارت کے دورے پر گئی تو چھ ٹیسٹ میچ کھیلے گئے۔

پاکستان یہ سیریز 2-0 سے ہار گیا۔ اس سیریز میں بھارتی ایمپائرنگ کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ پاکستانی باﺅلرز نے الزام عائد کیا کہ اپنی ٹیم کو جتوانے میں بھارتی ایمپائرز نے اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ بھارتی کھلاڑیوں کو ایل بی ڈبلیو دیتے ہی نہیں تھے جبکہ پاکستانی کھلاڑیوں کے پیڈ پر گیند لگتے ہی بھارتی ایمپائر کی انگلی فضا میں بلند ہو جاتی تھی۔ بھارتی ایمپائرنگ کا سب سے زیادہ نشانہ جاوید میاں داد اور وسیم راجہ بنے۔ جاوید میاں داد کو تو بھارتی ایمپائروں نے نشانے پر لے رکھا تھا۔ اس کے باوجود وہ پوری سیریز میں بہت اچھا کھیلے۔

وسیم راجہ کی کارکردگی بہترین تھی۔ دہلی ٹیسٹ میں انہیں 97 رنز پر ایل بی ڈبلیو دے دیا گیا۔ یہ بہت افسوسناک بات تھی کہ ایک شاندار بلے باز کو اس وقت آﺅٹ قرار دے دیا گیا جب وہ اپنی سنچری سے صرف تین رنز کی دوری پر تھے۔ بہرحال یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1982-83 میں بھارتی ٹیم نے دوبارہ پاکستان کا دورہ کیا اور چھ ٹیسٹ کھیلے۔

بھارت یہ سیریز 3-0 سے ہار گیا۔ بھارتی ٹیم نے شکست تو تسلیم کی لیکن ساتھ ہی یہ کہا کہ ان کی شکست میں عمران خان کی طوفانی باﺅلنگ اور ایمپائرنگ کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس وقت سنیل گواسکر بھارتی ٹیم کے کپتان تھے۔ انہوں نے شوروغوغا کیا کہ ان کی ٹیم کو 13 کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنا پڑ رہا ہے۔

1982ءمیں جب عمران خان کو پاکستانی ٹیم کا کپتان بنایا گیا تو انہوں نے غیر جانبدار ایمپائروں کا مطالبہ کیا۔ وہ مسلسل غیر جانبدار ایمپائروں کے لئے آواز اٹھاتے رہے اور پھر آخر آئی سی سی نے ان کا مطالبہ تسلیم کر لیا۔

1989-90ء میں جب بھارت کی ٹیم پاکستان آئی تو کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار غیر جانبدار ایمپائروں کا تقرر کیا گیا۔ یہ تجربہ نہایت کامیاب رہا اور اس سے ہی یہ علم ہوا کہ کون سی ٹیم کتنے پانی میں ہے اورکونسا ایمپائر کتنا باصلاحیت اور زیرک ہے۔

ریویو سسٹم نے تو اب ایمپائر کے لئے غلط فیصلے کرنے کی بہت کم گنجائش چھوڑی ہے۔ ہم ذیل میں اپنے قارئین کے لئے دنیائے کرکٹ کی تاریخ کے ان عظیم ایمپائروں کا تذکرہ کریں گے جن کی شاندار کارکردگی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔

سٹیو بکنر

ویسٹ انڈیز سے تعلق رکھنے والے سٹیوبکنر کو عظیم ترین ایمپائر کہا جاتا ہے۔ وہ بلا کے ذہین اور سمجھدار تھے۔ ایل بی ڈبلیو کا فیصلہ کرنے سے پہلے وہ چند لمحوں کے لئے سوچ بچار کرتے تھے اور پھر سب کو ان کے فیصلے کو پتا چل جاتا تھا۔

اپنی پوری زندگی میں انہیں چند مرتبہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آسٹریلیا میں انہوں نے دو بار سچن ٹنڈولکر کو آﺅٹ قرار دیا جس پر کرکٹ کے تبصرہ نگاروں اور بھارتی عوام نے سخت تنقید کی۔

خود ٹنڈولکر نے ان فیصلوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ تیسری بار 2005ء میں پاک بھارت کلکتہ ٹیسٹ میں بھی انہوں نے سچن ٹنڈولکر کو آﺅٹ دیا۔یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے سٹیوبکنر کو بھارت میں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔ لیکن بکنر کا وقار بدستور قائم رہا۔

جمیکا سے تعلق رکھنے والے بکنر سکول ٹیچر تھے۔ کرکٹ کی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے وہ فٹ بال کے ریفری تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے 1989ء میں ایک ٹیسٹ میچ میں ایمپائر کے فرائض سرانجام دیئے۔ انہوں نے 128 ٹیسٹ میچوں اور 181 ایک روزہ میچوں میں ایمپائرنگ کی۔ انہوں نے 2009ء میں ایمپائرنگ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔

ڈکی برڈ

یہ عظیم ایمپائر 19 اپریل 1933ء کو یارک شائر کاﺅنٹی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچپن کے دنوں میں سخت محنت کی۔ وہ ایک کوئلے کی کان میں کام کرتے رہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈکی برڈ کا پہلا پسندیدہ کھیل فٹ بال تھا لیکن بدقسمتی سے وہ زخمی ہو گئے اور فٹ بال کا کھلاڑی بننے کا ان کا خواب چکنا چور ہو گیا۔

اس کے بعد وہ پرنسلے میں کاﺅنٹی کرکٹ کھیلنے گئے۔ وہ یارک شائر کی طرف سے بھی کھیلتے رہے۔ ڈکی برڈ نے انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے مابین ٹیسٹ میچ میں سب سے پہلے ایمپائرنگ کی۔

انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے 1979ء، 1975ء اور 1983ء میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ میں ایمپائرنگ کی۔ وہ بڑے شاندار ایمپائر تھے۔ البتہ 1987ء میں ہونے والے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں انہوں نے عمران خان کو غلط آﺅٹ دیا جس سے میچ کا نقشہ ہی بدل گیا لیکن بہرحال انسانوں سے غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں۔ عمران خان ابھی تک اس آﺅٹ کو نہیں بھولے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس غلط فیصلے سے ورلڈ کپ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ 1996ءمیں ڈکی برڈ نے اپنے آخری ٹیسٹ میچ میں ایمپائرنگ کی۔ انہیں انگلش اور بھارتی کھلاڑیوں نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔

ڈیوڈ شیفررڈ

انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے اس باکمال ایمپائر نے بھی بڑی عزت اور نیک نامی کمائی۔ وہ 27 دسمبر 1940 کو بائیڈفورڈ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹر کی حیثیت سے اپنا کیریئر شروع کیا۔

انہوں نے گلوسٹر شائر کی طرف سے 14 سال تک کاﺅنٹی کرکٹ کھیلی۔ 1981ء میں انہوں نے ایمپائرنگ کے لئے کوالیفائی کر لیا۔ 1983ء کے ورلڈ کپ میں انہوں نے پاکستان اور سری لنکا کے درمیان میچ میں ایمپائرنگ کے فرائض سرانجام دیئے۔ یہ ان کا پہلا میچ تھا۔ 1985ء کی ایشنز سیریز میں انہوں نے مانچسٹر ٹیسٹ میں ایمپائرنگ کی۔ ان کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سکور 111 ہو جاتا تھا تو وہ اپنی ٹانگ کو اوپر اٹھا دیتے تھے۔

انہوں نے 92 ٹیسٹ اور 172 ایک روزہ میچوں میں ایمپائرنگ کی۔ اس کے علاوہ وہ 1999,1996 اور 2003 کے ورلڈ کپ میں بھی اپنے فرائض سرانجام دیتے نظر آئے۔ 2009 میں یہ عظیم ایمپائر پھیپھڑوں کے سرطان کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گیا۔

سائمن ٹوفل

آسٹریلیا کے یہ شاندار ایمپائر 21 جنوری 1971 کو نیو ساﺅتھ ویلز آسٹریلیا میں پیدا ہوئے۔ سائمن ٹوفل نے کرکٹ کیریئر ایک فاسٹ میڈیم باﺅلر کی حیثیت سے کیا۔ وہ کیمیرے کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلتے تھے۔

انہوں نے سب سے پہلے 1999ء میں آسٹریلیا اور سری لنکا کے مابین کھیلے جانے والے ایک روزہ میچ میں ایمپائرنگ کے فرائض سرانجام دیئے۔ پھر انہوں نے آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ میں ایمپائرنگ کی۔

2004 سے 2008 تک انہیں بہترین ایمپائر قرار دیا گیا۔ ٹوفل نے 174 ایک روزہ میچوں میں ایمپائرنگ کی جبکہ وہ 74 ٹیسٹ میچوں میں ایمپائر بنے ۔اسی طرح انہوں نے 34 ٹی 20 میچوں میں بھی اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ وہ 2012ءمیں ریٹائر ہوگئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔

علیم ڈار

ویسے تو پاکستان نے خضر حیات، محبوب شاہ اور شکور رانا جیسے قابل ایمپائر پیدا کئے لیکن جو مقام اور مرتبہ علیم ڈار کو ملا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ ان کا پورا نام علیم سرور ڈار ہے۔

وہ پاکستان کے فرسٹ کلاس کرکٹر تھے۔ وہ ایک بلے باز کی حیثیت سے گوجرانوالہ کرکٹ ایسوسی ایشن، الائیڈ بینک آف پاکستان اور پاکستان ریلوے کی طرف سے کھیلتے رہے۔ وہ لیگ بریک باﺅلر بھی تھے۔

سال 2000ء میں جب ان کی عمر صرف 30 برس تھی انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ ایمپائر کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ہونے والے میچ میں ایمپائرنگ کے فرائض سرانجام دیئے۔

2002ء میں علیم ڈار کو بہترین ایمپائرنگ کرنے پر آئی سی سی ایلیٹ ایمپائر پینل میں شامل کر لیا گیا۔ 2010, 2009 اور 2011 میں انہیں آئی سی سی کا بہترین ایمپائر منتخب کیا گیا۔ پاکستانی حکومت نے انہیں تمغہ حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا۔ ان کا ایک ریکارڈ ہے کہ انہوں نے مسلسل 15 درست فیصلے دیئے۔ ان فیصلوں کو ڈی آر ایس (DRS) بھی شکست نہ دے سکا۔ انہوں نے 159 ایک روزہ اور 87 ٹیسٹ میچوں میں ایمپائرنگ کی ۔ وہ واقعی ایک عظیم ایمپائر تھے۔

بلی باﺅڈن

نیوزی لینڈ کے اس عظیم ایمپائر کا اصل نام برسینٹ فریزر باﺅڈن ہے۔ لیکن انہیں عام طور پر بلی باﺅڈن کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس ایمپائر کے آﺅٹ دینے کا انداز سب سے انوکھا تھا۔

وہ ایک دم انگلی کھڑی نہیں کرتے تھے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ قسطوں میں انگلی کھڑی کرتے تھے اور اس دوران وہ اپنی انگلی ٹیڑھی کر لیتے تھے۔ بلی باﺅڈن 1963ءمیں ہینڈرسن (نیوزی لینڈ) میں پیدا ہوئے۔

سب سے پہلے 1995 میں انہوں نے نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے درمیان کھیلے جانے والے ایک روزہ میچ میں ایمپائرنگ کے فرائض سرانجام دیئے۔ 2000ءمیں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں وہ ایمپائر بنے۔

انہوں نے آئی سی سی ورلڈ کپ میں تین بار ایمپائر کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے 184 ٹیسٹ اور 77 ایک روزہ میچوں میں اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ اس کے علاوہ وہ 21 ٹی 20 میچوں میں بھی ایمپائر کے طور پر سامنے آئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک باوقار اور قابل ایمپائر تھے۔

ڈیرل ہارپر

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے یہ ایمپائر 1951ءمیں پیدا ہوئے۔ 1983ءمیں وہ ٹیسٹ ایمپائر بنے۔ 2002 میں وہ پہلے آسٹریلوی ایمپائر تھے جو آئی سی سی ایلیٹ پینل کے رکن بنے۔ وہ 2011 تک اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ انہوں نے 94 ٹیسٹ اور 174 ایک روزہ میچوں میں ایمپائرنگ کی۔

وہ اعلیٰ درجے کے ایمپائر تھے لیکن 2011 میں بھارت اور ویسٹ انڈیز کے مابین ہونے والے ٹیسٹ میچ میں ان پر تنقید کی گئی جس کے بعد وہ ریٹائر ہوگئے۔

ٹونی ہل

نیوزی لینڈ کے ٹونی ہل نے 1951 میں آک لینڈ میں جنم لیا۔ انہوں نے مارچ 1998 میں نیوزی لینڈ اور زمبابوے کے مابین کھیلے گئے ایک روزہ میچ میں ایمپائرنگ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ 2001 میں وہ ٹیسٹ ایمپائر بنے۔

انہوں نے 96 ایک روزہ اور 39 ٹیسٹ میچوں میں ایمپائر کے طور پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ وہ 17 ٹی 20 میچوں میں بھی ایمپائر بنے۔ وہ آئی سی سی ایلیٹ پینل کے رکن منتخب ہوئے۔ ٹونی ہل کرکٹ کے بہترین ایمپائروں میں سے ایک تھے۔

یہ ایمپائرز جب تک کام کرتے رہے انہوں نے اپنے فرائض دیانت داری سے سرانجام دیئے۔ البتہ کبھی کبھی ان سے بھی غلطی سرزد ہو جاتی تھی لیکن مجموعی طور پر انہوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔