نام بگاڑنا: معاشرتی بُرائی

Published On 17 October,2025 11:48 am

لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) ہمارا دین کامل حقیقت میں ایک مکمل نظام حیات، ضابطہ زندگی اور قانون شریعت ہے، جو تمام شعبہ حیات اور عالم کیلئے کامل رہنمائی اور راستگی عطا کرتا ہے، اسی طرح وہ ناموں کے سلسلے میں بھی ایک مکمل ضابطہ پیش کرتا ہے، جس کا مقصد اچھے ناموں سے لوگوں کو پکارنا، اُس کے کارناموں سے روشناس کرانا اور نام کی اہمیت کو بتانا ہے۔

نام کی اہمیت انسانی زندگی میں اس لئے بھی ہے کہ وہ اُس کی شخصیت کا پتہ دیتا ہے، بامعنی نام رکھنا اسلامی تقاضوں کے عین مطابق ہے، نام انسان کے دین و مذہب کا عکاس ہے، اس لئے بچوں کا نام رکھنے سے پہلے اس بات پر غور کریں کہ وہ اُس کی شخصیت کا حصہ ہے اور آئندہ وہ اپنی زندگی اسی نام سے بسر کرے گا، اپنی شناخت اسی نام سے کرائے گا اوراُس کے اچھے کارناموں کو اسی نام سے شناخت کیا جائے گا، حتیٰ کہ بعد از مرگ قبر تک بلکہ قیامت کے دن زندہ کئے جانے کے بعد بھی وہ اپنے اسی نام سے پکارا جائے گا، گویا اُس کا نام ہی اُس کی شناخت کا سبب ہے۔

ناموں کے حوالے سے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اچھے، بامقصد، بامعنی اور اسلاف کے ناموں پر رکھے جائیں، حضور نبی کریمﷺ نے ناموں کے سلسلے میں اپنی اُمت کو جو تعلیم فرمائی، اُس میں سے چند یہ ہیں کہ قیامت کے روز ہر انسان کو اُس کے باپ کے نام سے پکارا جائے گا (ابوداؤد)۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲﷺ نے فرمایا کہ تمہارے ناموں میں سے ﷲ جل شانہ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نام عبدﷲ (ﷲ کا بندہ) اور عبدالرحمن (رحمان کا بندہ) ہیں، والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اچھے نام رکھیں، اور پھر جو نام اس کا رکھیں تو اسی نام سے اسے پکاریں، عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ ناموں کے بگاڑنے کی ابتدا گھر کے لوگوں سے ہی ہوتی ہے، جب وہ پیار میں مامون کو منو، ممو، رشید کو رشو اور ودود کو ودّو اور ددّو کے نام سے بلاتے ہیں، نام کو بگاڑنا قابل تعزیر ہے۔

ناموں کا بگاڑ معاشرے پر برے اثرات مرتب کرتا ہے، عموماً نام بگاڑنے پر لڑائی جھگڑے بھی ہو جاتے ہیں، جو ہماری اخلاقی پستی کی دلیل ہے، ناموں کا بگاڑ بچوں کے ذہن پر بھی اَثر انداز ہوتا ہے اور ذہنی دباؤ کا سبب بھی بنتا ہے، انہیں یہ احساس باور کراتا ہے کہ اُن کے والدین نے اُن کا کتنا برُا نام رکھا ہے، ناموں کے بگاڑنے سے ہماری معاشرتی اور سماجی سرگرمیوں پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی لئے حضورﷺ نے ناموں کو بگاڑنے سے منع فرمایا ہے۔

آج کل ناموں کے سلسلے میں کچھ لوگوں میں یہ غلط رواج پڑ گیا ہے کہ وہ قرآن سے نام کی فال نکالتے ہیں، مثلاً وہ بچے کا نام تجویز کرتے وقت قرآن مجید سے نام کے حروف نکال کر اور بچے کے نام کے حروف کے اعداد اور تاریخ پیدائش کے اعداد کو آپس میں ملا کر نام رکھتے ہیں، یہ بالکل غلط طریقہ ہے۔

قرآن و حدیث میں علم الاعداد پر اعتماد کی اجازت نہیں ہے، تاریخی نام رکھنا جس کے ذریعے سن پیدائش محفوظ ہو جائے تو یہ صحیح ہے، اسی طرح بعض لوگ پیار و اظہار محبت کی غرض سے اپنے بچوں کے اصلی ناموں کے علاوہ ایک اور عرفی نام بھی رکھتے ہیں، مثلاً محمد حنیف عرف حنفو، عبدالرحیم عرف رحیمو، شہاب الدین عرف شابو، عبدالحامد عرف پپی وغیرہ، یہ نامناسب بات ہے اورنام کو بگاڑنے اور عرفیت کو بڑھانے کا ذریعہ بننے والے نام رکھنے کی شریعت میں گنجائش نہیں۔

بعض لوگ قرآن مجید کھول کر ساتویں سطر کی ابتدا میں جو حرف ہوگا، اسی حرف سے نام رکھتے ہیں، حرف کاف (ک) نکلا تو کاف سے شروع ہونے والے نام رکھتے ہیں مثلاً کلیم عرف کمو وغیرہ، اس طرح فال لینا بھی غلط ہے، شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، پیار اور لاڈ کے نام رکھنے کی اِجازت ہے کہ آپﷺ نے حضرت عائشہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کو حمیرا کہہ کر پکارا، نام کو مختصر بھی کر سکتے ہیں اس لئے نبی کریمﷺ نے حضرت عائشہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کو عائش کہہ کر پکارا (صحیح بخاری)۔

واضح رہے کہ نام کو اگر اس طرح مختصر کیا جائے کہ اُس کے معنی مذموم اور مفہوم مردود ہو جائیں یعنی اچھے نام برے نام میں تبدیل ہو جائیں تو اِس طرز پر نام کو مختصر کرنا شرعاً درست نہیں ہے، جیسے حبیب کو حبو، جلیل کو جلو اور نصیر کو نصو وغیرہ کہنا، اسلام نے ناموں کو بگاڑنے اور کسی برے نام سے پکارنے سے منع کیا ہے، اسلام میں یہ عمل قطعاً درست نہیں، خاص کر وہ نام جو ﷲ تعالیٰ کے ناموں میں شامل ہیں، مثلاً اکثر لوگ رحیم کو رحیمے، کریم کو کریمے، سلام کو سلامے / سلامو، کہہ کر پکارتے ہیں، یہ اسمائے حسنہ کی توہین ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ برے ناموں کو بدل کر ان کے عوض اچھے نام رکھ دیا کرتے تھے (ترمذی)، ایک جماعت رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس میں ایک شخص تھا جس کو اصرام کہتے تھے، آپﷺ نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارا نام کیا ہے، اس نے کہا مجھے اصرام کہتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا (نہیں) بلکہ تمہارا نام زرعہ ہے، اس روایت کو ابو داؤد نے نقل کیا ہے۔

نیز انہوں نے (بطریق وتخلیق ) یہ بھی نقل کیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے عاص، عزیز، عتلہ، شیطان، حکم، غراب، حباب اور شہاب ناموں کو بدل دیا تھا، البتہ شہاب کی اضافت دین کی طرف کی جائے تو صحیح ہے، جیسے شہاب الدین وغیرہ، بعض لوگ اچھے ناموں کو بگاڑ کر بولتے ہیں مثلاً میمونہ کو ممو، سعیدہ کو سدو، مجیداں کو مجو، نعیمہ کو نمو اور ناجیہ کو نجو، وغیرہ۔ چٹا، مٹا، چکنا، گیٹا، لمبو، ہکلا، کالو، کالیا، لنگڑا، کانہ، کہہ کر پکارنا غلط ہے۔

اسی طرح بعض لوگ اپنے بچوں کے وہی نام رکھ دیتے ہیں جن مہینوں میں وہ پیدا ہوتے ہیں جیسے رمضانی، شعبانی، عیدوں، شبراتی وغیرہ، یہ طریقہ بھی شرعاً صحیح نہیں ہے، عموماً گلی، محلوں، رشتہ داروں اور برادری والوں میں ناموں کو بگاڑ کر بلانا، انہیں پکارنا یا آواز دینا معیوب نہیں جانا جاتا، حالانکہ کسی کے نام کو بگاڑنا اُس فرد اور اس کے نام کی تضحیک کے برابر ہے، اچھے بھلے نام کو لوگ بگاڑ کر ’’کاسو‘‘ کر دیتے ہیں حالانکہ اس کا نام قاسم ہوتا ہے۔

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی ترجمان جماعت اہلسنت پاکستان صوبہ پنجاب، خطیب جامعہ الطافیہ سلطان الذاکرین ہیں، 27 سال سے مختلف جرائد کیلئے لکھ رہے ہیں۔