لاہور: (محمد علی) ہر سال 22 اکتوبر کو دنیا بھر میں لکنت سے آگاہی کا بین الاقوامی دن (International Stuttering Awareness Day) منایا جاتا ہے، اس دن کا مقصد اُن افراد کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے جو بولنے میں روانی کی کمی یعنی لکنت کا سامنا کرتے ہیں۔
یہ دن معاشرے میں برداشت، سمجھ بوجھ اور ہمدردی کا پیغام دیتا ہے تاکہ بولنے میں مشکل محسوس کرنے والے افراد کو احساسِ کمتری کا شکار نہ ہونا پڑے، لکنت ایک بولنے کی خرابی (Speech Disorder) ہے جس میں الفاظ یا آوازوں کو دہرانا، کھینچنا یا بولنے میں غیر ارادی وقفے آنا شامل ہیں، یہ عموماً بچپن میں ظاہر ہوتی ہے لیکن بعض اوقات بالغ عمر تک برقرار رہتی ہے، دنیا بھر میں اندازاً 7 کروڑ سے زائد افراد لکنت کا سامنا کرتے ہیں، یعنی دنیا کی آبادی کا تقریباً ایک فیصد۔
لکنت کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں، جیسے: جینیاتی عوامل ،دماغی ساخت اور نیورولوجیکل فرق، نفسیاتی دباؤ اور خود اعتمادی کی کمی، بچپن میں زبان سیکھنے کی مشکلات، یہ مسئلہ صرف بولنے تک محدود نہیں رہتا بلکہ نفسیاتی اثرات بھی مرتب کرتا ہے، بہت سے متاثرہ افراد سماجی تنہائی، شرمندگی یا خود پر عدم اعتماد کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں صورتحال
ہمارے سماج میں بولنے کی مشکلات پر بات کرنا اکثر معاشرتی شرم یا مذاق کا سبب بن جاتا ہے، سکولوں اور دفاتر میں لکنت والے افراد کو کبھی کبھی طنز و مزاح کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے، تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں سپیچ تھراپی کے ماہرین، نیورولوجسٹس اور نفسیاتی ماہرین اس مسئلے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔
لاہور، کراچی اور اسلام آباد سمیت کئی بڑے شہروں میں کئی کلینکس اور ہسپتالوں میں لکنت کے علاج اور تربیت کے سیشنز منعقد کئے جاتے ہیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نوجوان سپیکرز اور موٹیویشنل سپیکرز نے لکنت کے بارے میں بات کر کے شعور بیدار کیا ہے، کچھ تعلیمی اداروں نے بھی سپیشل ایجوکیشن کے نصاب میں بولنے کی مشکلات سے متعلق آگاہی شامل کی ہے۔
علاج اور تربیت
لکنت کا کوئی فوری علاج موجود نہیں مگر کچھ طریقے مددگار ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ سپیچ تھراپی، ماہرین کی مدد سے بولنے کی مشق اور سانس کے توازن کی تربیت، کونسلنگ جو کہ خود اعتمادی بڑھانے اور ذہنی دباؤ کم کرنے کے لئے معاون ثابت ہوتی ہے، لکنت والے افراد کو ایک دوسرے سے سیکھنے اور حوصلہ بڑھانے کا موقع فراہم کرنے والے سپورٹ گروپ۔ بعض ایپس اور جدید سافٹ ویئرز بھی بولنے کی مشق میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں بولنے کی روانی کو ذہانت یا شخصیت کی علامت سمجھا جاتا ہے وہاں ضروری ہے کہ ہم اس سوچ کو بدلیں، اس دن کا پیغام یہ ہے کہ لکنت شرمندگی نہیں، ایک جسمانی کیفیت ہے جس کا احترام اور سمجھ ضروری ہے۔
ہمیں چاہیے کہ لکنت والے افراد کا احترام کریں، ان کی بات مکمل سنیں، ان پر طنز یا مزاح نہ کریں، اور اگر ممکن ہو تو ان کے حوصلے کی تعریف کریں، لکنت سے آگاہی کا بین الاقوامی دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بولنے کا حق ہر انسان کا بنیادی حق ہے چاہے وہ روانی سے بولے یا تھوڑا رکے، پاکستان میں اگر معاشرہ اس مسئلے کو طنز، مزاح یا کمزوری کے بجائے ایک قابلِ فہم کیفیت کے طور پر قبول کرے تو بہت سے افراد بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔
محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں۔