خواتین کا بدلتا رویہ…

Published On 17 October,2025 12:22 am

(تحریر: ڈاکٹر شعوانہ مفتی) بی ایچ آر ٹی (بائیو آڈینٹیکل ہارمون رپلیسمنٹ تھراپی) خواتین کی زندگی کو دوبارہ متوازن بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ دراصل ایک ایسا علاج ہے جس میں خواتین کے جسم میں کم ہونے والے ہارمونز کو دوبارہ متوازن کیا جاتا ہے۔

 یہ ہارمونز مصنوعی نہیں ہوتے بلکہ ان کی کیمیائی ساخت بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسی قدرتی طور پر انسانی جسم میں پائے جانے والے ہارمونز کی ہوتی ہے۔ یہ بالکل وہی ہارمونز ہوتے ہیں جو ایک جوان عورت 25 سال کی عمر میں بنارہی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے جسم انہیں آسانی سے قبول کرلیتا ہے۔ پری مینوپاز کے دوران خواتین کے جسم میں خاص طور پر پروجیسٹرون کی کمی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کا اسٹروجن توازن بگڑجاتا ہے۔ اسی بگاڑ کی وجہ سے ہی موڈ سوئنگ، غصہ، نیند کی کمی، جوڑوں کا درد، توانائی کی کمی اور دیگر مسائل سامنے آتے ہیں۔

جب ان کے بس میں نہیں رہتاچالیس سال کی عمر کے بعد جب ہارمونز کا توازن بگڑنے لگتا ہے تو نتیجے میں چڑچڑاپن، رات کو نیند نہ آنا اور بے چینی جیسی کیفیات محسوس کرنے لگتی ہیں

ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے میٹنگ روم میں سینئر منیجر فاطمہ کی آواز ایک بار پھر بلند ہوئی۔ معمولی سی بات پر وہ اپنے جو نیئر ز کو سخت لہجے میں ڈانٹ رہی تھی۔ اور یہ اس مہینے کا چو تھا واقعہ تھا۔ ابتدامیں اس کے ساتھی اور ماتحت عملہ اسے وقتی رویہ سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سب کو اندازہ ہوا کہ فاطمہ کے مزاج میں یہ تبدیلی مستقل صورت اختیار کر رہی ہے۔ وہی فاطمہ جو برسوں اپنی خوش اخلاقی اور تحمل مزاجی کے لیے جانی جاتی تھی، اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھنے لگی تھی۔ فاطمہ اس کمپنی میں بیس برس سے کام کر رہی ہے۔

اس کی محنت اور خوش اخلاقی نے ہمیشہ اسے کامیاب بنایا۔ دفتر میں ہر کوئی اس کے اند ازِ گفتگو اور تعاون بھرے رویے کی تعریف کرتا اور گھر میں بھی وہ ایک اچھی ماں اور بیوی کی پہچان رکھتی تھی لیکن حالیہ مہینوں میں فاطمہ کا مزاج بالکل بدلنے لگا تھا۔ وہ جو کبھی ہر کسی کا دکھ سکھ پوچھتی تھی ، اب اکثر خاموش رہتی۔ اگر کوئی اس سے اختلاف کرتا تو بات سمجھنے کے بجائے سختی سے جواب دیتی ، بلکہ اس سے لڑپڑتی۔

یہ صرف دفتر تک محدود نہیں رہا، گھر میں بچوں کی معمولی غلطیاں بھی برداشت سے باہر ہو جاتیں۔ شوہر اور بچے حیران تھے کہ کل تک نرم مزاج اور ہنس مکھ فاطمہ آج اتنی چڑچڑی کیوں ہو گئی ہے۔ خود فاطمہ بھی سمجھ نہیں پارہی تھی کہ یہ سب اس کے ساتھ آخر کیوں ہو رہا ہے ، اسے یہ اندازہ ضرور تھا کہ اس کے اندر کچھ بدل رہا ہے۔ کسی کو ڈانٹنے کے چند منٹ بعد ہی اسے احساس ہونے لگتا تھا کہ اس نے غلط کیا ہے۔

اسے خود اپنے رویے پر شرمندگی ہو نا شروع ہو گئی تھی۔ابتدا میں اسے لگا کہ اس کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ چل رہا ہے اس لئے اس نے ایک ماہر نفسیات سے رجوع کیا مگر مختلف تھراپیز اور مشقوں کے باوجود بہتری نہ آسکی۔بہتری آتی بھی کیسے کیونکہ اس کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ تھا ہی نہیں۔

فاطمہ جیسی نجانے کتنی ہی خواتین روزانہ اسی کیفیت سے گزرتی ہیں۔ وہ اپنے بدلتے رویے کو کبھی ذہنی دباؤ، کبھی گھر یلو تناؤ اور کبھی بڑھتی عمر کا شاخسانہ سمجھ کر برداشت کرتی رہتی ہیں۔ فاطمہ کے ساتھ جو کچھ ہو رہاتھا وہ صرف ایک نفسیاتی کیفیت نہیں بلکہ ایک جسمانی تبدیلی کا نتیجہ تھا۔ اکثر خواتین اس مرحلے میں یہی سوچتی ہیں کہ شاید یہ گھر یلو د باؤ یا تھکن کا اثر ہے لیکن دراصل پس پردہ جسم میں ایک خاموش مگر بڑی تبدیلی چل رہی ہوتی ہے:

ہارمونز کا عدم توازن:

چالیس سال کے بعد جب خواتین کی ماہواری بے ترتیب ہونا شروع ہوتی ہے تو ساتھ ہی ہارمونز کا توازن بھی بگڑنے لگتا ہے۔ اس مرحلے کو ’ پیری مینو پاز‘ کہتے ہیں۔ عورت کی صحت کے لیے تین اہم ہارمون ہیں: ایسٹروجن، پروجیسٹرون اور ٹیسٹوسٹیرون۔ پیری مینو پاز کے مرحلے میں خاص طور پر پروجیسٹرون کے لیول کم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پروجیسٹرون اور ایسٹر و جن کا توازن متاثر ہوتا ہے۔پروجیسٹرون کو عموماً ’’ریلیکسنگ ہارمون ‘‘کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ذہن کو سکون اور موڈ کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پر وجیسٹرون نیند کے سائیکل کو متوازن رکھتا ہے۔ نیند اور موڈ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ پری مینو پاز میں سب سے پہلے پروجیسٹرون کی ہی کمی ہوتی ہے ۔ جب یہ ہارمون ایسٹر و جن کے ساتھ عدم توازن کا شکار ہوتا ہے تو اس کا اثر دماغ میں موجود نیوروٹرانسمیٹر ز پر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں خواتین اکثر موڈ سوئنگ، چڑچڑا پن، رات کو نیند نہ آنا اور بے چینی جیسی کیفیات محسوس کرنے لگتی ہیں۔ یہی وہ تبدیلیاں ہیں جو فاطمہ جیسی بے شمار خواتین کو متاثر کرتی ہیں۔

ایسی حالت میں خواتین کو کیا کرنا چاہیے؟

ایسی کیفیت کا سامنا کرنے والی خواتین کو سب سے پہلے اپنے فی میل ہارمونز کے ٹیسٹ کروانے چاہئیں، جن میں خاص طور پر ایسٹر و جن (Estrogen) ،پروجیسٹرون (Progesterone) ،ٹیسٹوسٹیرون (Testosterone) ، ایف ایس ایچ (FSH)اورایل ایچ (LH) وغیرہ۔ایف ایس ایچ اور ایل ایچ ایسے ہارمون ٹیسٹ ہیں جو اووری کی کار کردگی اور ہارمونل توازن کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔اگر ان ٹیسٹس میں کسی بھی قسم کی بے ترتیبی یا کمی بیشی سامنے آئے تو خواتین کو چاہیے کہ وہ کسی مستند اور قابل اعتماد ہار مون سپیشلسٹ ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ یہ ماہر ڈاکٹر مریضہ کی حالت کو دیکھ کر بی ایچ آرٹی کا آغاز کر سکتے ہیں۔
بی ایچ آر ٹی کیا ہے اور یہ کس طرح خواتین کی زندگی کو دوبارہ متوازن بنانے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ اب ہم اس پر گفتگو کریں گے۔ بی ایچ آر ٹی (بائیو آڈینٹیکل ہارمون رپلیسمنٹ تھراپی) در اصل ایک ایسا علاج ہے جس میں خواتین کے جسم میں کم ہونے والے ہارمونز کو دوبارہ متوازن کیا جاتا ہے۔ یہ ہار مونز مصنوعی نہیں ہوتے بلکہ ان کی کیمیائی ساخت بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسی قدرتی طور پر انسانی جسم میں پائے جانے والے ہارمونز کی ہوتی ہے۔ یہ بالکل وہی ہار مونز ہوتے ہیں جو ایک جوان عورت کی اووری 25 سال کی عمر میں بنارہی ہوتی ہے۔

اس وجہ سے جسم انہیں آسانی سے قبول کر لیتا ہے اور وہ اپنا کام ویسے ہی کرنے لگتے ہیں جیسے اصل ہارمونز کرتے ہیں۔ پری مینو پاز کے دوران خواتین کے جسم میں خاص طور پر پروجیسٹرون کی کمی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کا اسٹر و جن توازن بگڑ جاتا ہے۔ اسی بگاڑ کی وجہ سے ہی موڈ سوئنگ، غصہ، نیند کی کمی، جوڑوں کا درد، توانائی کی کمی اور دیگر مسائل سامنے آتے ہیں۔ بی ایچ آرٹی ان ہارمونز کی سطح کو دوبارہ درست کر کے عورت کی زندگی کو متوازن بنانے میں مدد دیتی ہیں۔

مینو پاز کی دیگر علامات اور بی ایچ آرٹی کے فوائد:

مینو پاز صرف موڈ سوئنگز یاغصے تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ کئی اور مسائل بھی جڑے ہوتے ہیں۔ خواتین کو رات کے وقت اچانک پسینے آنا (ہاٹ فلیش)، نیند کا متاثر ہونا، دل کی دھڑکن تیز ہونا، ہڈیوں کی کمزوری، یادداشت اور توجہ میں مشکلات اور جلدا وربالوں کی صحت میں بگاڑ جیسے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ تمام علامات دراصل ہارمونز کی کمی کی وجہ سے سامنے آتی ہیں۔بی ایچ آر ٹی ان تمام پہلوؤں پر مثبت اثر ڈالتی ہے۔ یہ نہ صرف موڈ اور نیند کو بہتر بناتی ہے بلکہ توانائی بحال کرتی ہے، ہڈیوں اور دل کی صحت کو سہارا دیتی ہے ، جلد اور بالوں میں تازگی لاتی ہے اور یادداشت اور فوکس کو بھی بہتر کرتی ہے۔ اس طرح یہ تھراپی ایک عورت کی زندگی کو مجموعی طور پر بہتر اور متوازن بنانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔

بی ایچ آر ٹی کس طرح دی جاتی ہے؟:

بی ایچ آرٹی عام طور پر دو بنیادی طریقوں سے دی جاتی ہے:
کریم / جیل : یہ ہارمونز والی کریم یا جیل روزانہ جلد پر لگائی جاتی ہے۔ یہ آہستہ آہستہ جسم میں جذب ہو کر خون میں شامل ہوتی ہے اور ہار مونز کے لیول کو متوازن رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

پیچیز: یہ باریک میڈیکل پیچز ہوتے ہیں جو جلد پر چپکا دیے جاتے ہیں۔ یہ ہارمونز کو مسلسل اور متوازن مقدار میں جسم میں داخل کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح اچانک کمی یا زیادتی نہیں ہوتی۔

یہ دونوں طریقے محفوظ اور آسان ہیں اور مریضہ کے روز مرہ معمولات میں بھی زیادہ رکاوٹ پیدا نہیں کرتے۔ کون سا طریقہ زیادہ بہتر ہے، اس کا فیصلہ ڈاکٹر مریضہ کی علامات اور ضرورت کو دیکھ کر کرتا ہے۔

بی ایچ آرٹی بمقابلہ مصنوعی ہارمونز:

دنیا بھر میں برسوں تک خواتین کو ہارمونز کی کمی پوری کرنے کے لیے مصنوعی ہارمون دیے جاتے رہے ہیں۔ ان ہارمونز سے وقتی طور پر کچھ علامات تو کم ہوتی ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے نقصانات بھی کھل کر سامنے آنے لگتے ہیں۔ طبی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ مصنوعی ہارمونز کے زیادہ عرصے تک استعمال سے چھاتی اور بچہ دانی کے کینسر اور بلڈ کلاٹس کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین ان کا استعمال کرنے سے گھبر اتی ہیں۔دوسری طرف بی ایچ آر ٹی ایک جدید اور محفوظ طریقہ علاج ہے۔

اس میں دیے جانے والے ہارمونز کی ساخت بالکل وہی ہوتی ہے جو قدرتی طور پر انسانی جسم میں پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جسم انہیں آسانی سے اپنا لیتا ہے۔ ان ہارمونز کے بروقت استعمال سے عورت کی زندگی کا توازن بر قرار ہو نا شروع ہو جاتا ہے۔آنے والی زندگی میں دل کی بیماریاں ، جوڑوں کے درد، ہڈیوں کا کھوکھلاپن اورAlzheimer disease (یاداشت کی کمزوری) جیسے خطرات کو کم کرتا ہے۔ نیند بہتر ہو جاتی ہے ، موڈ میں سکون آتا ہے اور وہ روز مرہ کے معمولات پھر سے پُر سکون انداز میں نبھانے لگتی ہے کیونکہ BHRT کا استعمال سوزش اور بڑھاپے کے ساتھ آنے والی Inflammation میں کمی لاتا ہے۔

بی ایچ آرٹی آج کی سائنسی دنیا کا ایک محفوظ اور مؤثر حل ہے جو خواتین کو نہ صرف دوبارہ متوازن زندگی کی طرف لے جاتا ہے بلکہ ان کی صحت، توانائی اور اعتماد کو بھی بحال کرتا ہے۔ یادرکھیں یہ کیفیت مستقل نہیں ہے۔ بروقت تشخیص اور درست علاج کے ذریعے خواتین اپنی زندگی کو دوبارہ متوازن بنا سکتی ہیں اور ایک بار پھر اپنی گھر یلو اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھا سکتی ہیں۔آخر کار ، ایک عورت صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے خاندان اور سماج کے لیے بھی اہم ہے۔ اس کی خوشی، سکون اور صحت ہی پورے گھرانے کے سکون کی ضمانت ہے۔