پاکستان کرکٹ کیلئے سال 2018 کیسا رہا؟

Last Updated On 26 December,2018 06:30 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں 0-5 سے کلین سوئپ ہو، ایشیا کپ میں ناقص کارکردگی یا پھر ٹیسٹ کرکٹ ۔۔ سال 2018 اعدادوشمار کے لحاظ سے پاکستان کرکٹ کے لیے کچھ اچھا ثابت نہ ہوا لیکن ٹی20 کرکٹ میں ناقابل شکست کارکردگی اور خصوصاً پاکستان سپر لیگ کے میچز کا لاہور کے ساتھ کراچی میں انعقاد سال 2018 کو پاکستان کے لیے یادگار بنا گیا۔

سال 2018 میں اکستان کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ اس نے کئی کامیابیاں حاصل کیں تو کئی ناکامیابی بھی۔

قومی ٹیم ٹی 20 میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز جیسی ٹیموں کے خلاف وائٹ واش کرتے ہوئے آئی سی سی ٹی 20 رینکنگ میں نمبر ون ٹیم رہی تو ٹیسٹ سیریز میں 49 برس کے بعد نیوزی لینڈ سے شکست نے طویل فارمیٹ کی کرکٹ کے حوالے سے سوالات اٹھا دیئے۔

آئیے دیکھتے ہیں سرفراز احمد کی کپتانی میں 2018ء کے دوران پاکستان ٹیم کی مجموعی کارکردگی کیسی رہی:

ٹیسٹ میچز:

پاکستان نے 2018ء میں ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز آئرلینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ کی سیریز سے کیا جو آئرلینڈ کی سرزمین پر پہلا ٹیسٹ تھا اور جسے پاکستان نے 5 وکٹوں سےجیت لیا۔مئی میں پاکستان ٹیم نے دورہ انگلینڈ کے دوران دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلی، جو ایک۔ایک سے برابر رہی۔ پہلے ٹیسٹ میں پاکستان نے 9 وکٹوں سے کامیابی سمیٹی، محمد عباس نے عمدہ بولنگ کرتے ہوئے مجموعی طور پر آٹھ وکٹیں حاصل کی۔

دوسرے ٹیسٹ میں بیٹسمینوں خصوصاً ٹاپ آرڈر زکی ناکامی کے باعث پاکستان کو ایک اننگز اور 55 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔انگلینڈ کی پہلی اننگز کے اسکور 363 رنز کے جواب میں پاکستان نے 174 اور 134 رنز بنائے۔اس سال پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیت کر ایک اور اعزاز اپنے نام کیا۔آسٹریلیا کو ابوظہبی ٹیسٹ میں 373 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دے کر متحدہ عرب امارات میں دو میچوں کی سیریز ایک۔صفر سے اپنے نام کی۔ محمد عباس نے ابوظہبی ٹیسٹ میں 10 اور سیریز میں مجموعی طور پر 17 وکٹیں حاصل کیں اور مین آف دی سیریز قرار پائے۔

ٹیسٹ کرکٹ میں نسبتاً بہتر کارکردگی کے بعد پاکستان کو نیوزی لینڈ کے خلاف تین میچوں کی سیریز میں 49 سال بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نیوزی لینڈ نے ابوظہبی میں کھیلے گئے دو ٹیسٹ میچز میں 123 اور صرف 4رنز سے شکست دی جبکہ پاکستان نے دبئی ٹیسٹ ایک اننگز اور 16 رنز سے اپنے نام کیا۔ یاسر شاہ اس میچ میں 14 وکٹیں لے کر مین آف دی میچ رہے

ون ڈے میچز:

ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں پاکستان نے سال کا آغاز مایوس کن انداز میں کیا۔ جنوری میں دورہ نیوزی لینڈ کے دوران پانچ ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کی سیریز کھیلی جس میں بیٹسمینوں کی خراب کارکردگی کے باعث اُسے وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا۔جولائی میں پاکستان ٹیم نے دورہ زمبابوےمیں پانچ ایک روزہ بین الاقوامی میچز کھیلے اور تمام میچز جیت کر میزبان ٹیم کو وائٹ واش کیا۔ فخرزمان مین آف دی سیریز رہے جبکہ امام الحق اور بابر اعظم نے بھی شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے سنچریز اسکور کیں۔ اسی دورے میںپاکستان نے زمبابوے اور آسٹریلیا کے خلاف تین ملکی سیریز بھی اپنے نام کی۔

ستمبر میں پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلادیش، افغانستان اور ہانگ کانگ کی ٹیموں کے درمیان ایشیا کپ کھیلا گیا لیکن پاکستان ٹیم سپر فور مرحلے میں بنگلادیش کے ہاتھوں شکست کے بعد ایونٹ سے باہر ہوگیا۔ بھارت نے فائنل میں بنگلادیش کو تین وکٹوں سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔

نومبر میں پاکستان نے نیوزی لینڈکے خلاف تین ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کی سیریز کھیلی جو ایک۔ایک سے برابر رہی۔ بارش کے باعث تیسرے اور فیصلہ کن میچ کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔

ٹی 20 میچز:

ٹی 20 کرکٹ میں پاکستان نے اپنی برتری اس سال بھی برقرار رکھی اور شاندار پرفارمنس دیتے ہوئے ویسٹ انڈیز، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو وائٹ واش کیا۔جنوری 2018ء میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کے دورے میں تین میچ کھیلے اور 2-1 سے سیریز اپنے نام کی۔ اپریل میں ویسٹ انڈیز نے پاکستان کا دورہ کیا اور کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلے گئے تین ٹی 20 میچز پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو تین۔صفر سے وائٹ واش کیا۔ جون میں پاکستان نے آئرلینڈ کو دو ٹی 20 میچز میں شکست دی۔

پاکستان، زمبابوے اور آسٹریلیا کے درمیان جولائی میں سہ ملکی سیریز ہرارے میں کھیلی گئی۔ فائنل میں پاکستان نے آسٹریلیا کو 6 وکٹوں سے شکست دے کر سیریز اپنے نام کی۔ اکتوبر میں آسٹریلیا کی ٹیم متحدہ عرب امارات میں آئی جہاں پاکستان نے اُسے تین ٹی20 میچز کی سیریز میں وائٹ واش کیا اور اسی کارکردگی کو دہراتے ہوئے نومبر میں نیوزی لینڈ کو تین ۔ صفر سے کلین سوئپ کیا۔

 انفرادی کارکردگی:

انفرادی کارکردگی میں حارث سہیل نے آٹھ ٹیسٹ میچز کی پندرہ اننگز میں پانچ سو پچاس رنز بنائے، سترہ ون ڈیز میں فخر زمان آٹھ سو پچھہتر اسکور کیے اور اٹھارہ ٹی ٹوئنٹی میچز میں 376 رنز بنانے والے فخرزمان ہی فخر پاکستان بنے۔

بولنگ میں فاسٹ بولر محمد عباس نے سات ٹیسٹ میچز سب سے زیادہ انتالیس شکار کیے۔ طویل فارمیٹ میں یاسر شاہ نے خوب تباہی مچائی، 33 ویں میچ میں وکٹوں کی ڈبل سنچری مکمل کر کے نمبر ون بولر بنے۔ سترہ ون ڈیز میں شاداب خان نے 23 وکٹیں لیں جبکہ انیس ٹی 20 میچز میں قومی لیگ اسپنر نے اٹھائیس شکار کر کے ٹاپ پوزیشن حاصل کی.

پی ایس ایل:

پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل) کا تیسرا ایڈیشن گزشتہ بقیہ ایڈیشنز کی نسبت کامیاب اور ہر لحاظ سے بڑا ثابت ہوا اور پاکستان نے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کی جانب ایک اور قدم بڑھتے ہوئے لیگ کے تین میچز کا پاکستان میں انعقاد کیا۔لیگ کا تیسرا ایڈیشن اس لحاظ سے بھی یادگار تھا کہ پہلی مرتبہ پاکستان سپر لیگ میں پانچ کی جگہ چھ ٹیموں نے شرکت کی اور ملتان سلطانز کی ٹیم کا اضافہ ہوا اور اس نے ایونٹ کا بہترین انداز میں آغاز کرتے ہوئے ابتدا میں متعدد فتوحات سمیٹیں۔

البتہ ان کی فتوحات کا تسلسل زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا اور پھر ایک ایسا موقع آیا کہ وہ ایونٹ میں فتوحات کے لیے ترس گئے اور اپنے پہلے ہی ایڈیشن میں کوالیفائرز کے لیے بھی کوالیفائی نہ کر سکے۔لاہور قلندرز اور کراچی کنگز کی ٹیمیں لگاتار تیسرے ایڈیشن میں ناکامی سے دوچار ہوئیں اور بڑے ناموں کی موجودگی کے باوجود بھی دونوں ٹیموں کی قسمت گزشتہ سیزن سے بدل نہ سکیں۔

پی ایس ایل کے ابتدائی دونوں ایڈیشنز کے فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والی فرنچائز کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اس مرتبہ اس معیار کی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکیں جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی اور وہ فائنل میں جگہ بنانے میں ناکام رہی۔ البتہ پشاور زلمی اور خصوصا اسلام آباد یونائیٹڈ نے ایونٹ میں بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے دیگر ٹیموں پر اپنی سبقت ثابت کی اور ایونٹ کے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔

لیکن اس سب سے بڑھ کر تیسرے سیزن کی سب سے بڑی بات لیگ کے تین میچز کا پاکستان میں انعقاد تھا جہاں زندہ دلان لاہور نے دو کوالیفائرز کی میزبانی کی اور پھر کراچی کو پہلی مرتبہ پاکستان سپر لیگ کے فائنل کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔ کراچی میں منعقدہ فائنل میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے اپنی فتوحات کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے کپتان مصباح الحق کی عدم موجودگی میں بھی بہترین کھیل پیش کیا اور فتح حاصل کر کے دوسری مرتبہ لیگ کی چیمپیئن بننے کا کارنامہ انجام دیا۔

البتہ سال کے اختتام سے قبل لیگ کو بڑا دھچکا لگا اور مالی معاملات کے سبب ملتان سلطانز کی ٹیم کی ملکیت واپس پاکستان کرکٹ بورڈ کو منتقل ہو گئی اور اب فرنچائز کی نیلامی کر کے اسے نئے مالک کے سپرد کیا جائے گا۔