لاہور: (دنیا میگزین) اصل میں پاور پلے کیری پیکر ورلڈ سیریز سے شروع ہوا، پھر یہ قانون آسٹریلیا میں پہلی مرتبہ 1980ء میں ون ڈے میچ میں اپنایا گیا۔
پاور پلے کا مطلب محدود اوورز کی کرکٹ میں پہلے 15 اوورز میں دائرے کے باہر دو فیلڈرز کھڑے کرنے کی پابندی ہوتی ہے۔
انہیں بیٹنگ اور باؤلنگ پاور پلے قرار دیا گیا۔ 2012ء میں مزید تبدیلی کی گئی اور تین سے کم کر کے دو پاور پلے کر دیئے گئے۔ 2015ء میں مزید تبدیلی لائی گئی۔
اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ پاور پلے میں تبدیلی آتی گئی۔ ظہیر عباس جنہیں ایشیا کا بریڈ مین بھی کہا جاتا تھا، وہ اپنی پرائم فارم میں تھے لیکن پہلے میچ میں وہ 40 رنز پر آؤٹ ہو گئے، جو ان کے حساب سے ناکامی تھی۔
2005ء میں پاور پلے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے دس اوورز کا پاور پلے رکھا گیا، پھر دو پاور پلے پانچ پانچ اوورز کے رکھے گئے۔ انہیں بیٹنگ اور باؤلنگ پاور پلے قرار دیا گیا۔ 2012ء میں مزید تبدیلی کی گئی اور تین سے کم کر کے دو پاور پلے کر دیئے گئے۔
2015ء میں مزید تبدیلی لائی گئی۔ اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ پاور پلے میں تبدیلی آتی گئی۔ اب کھلاڑیوں اور کپتان کو اسی پاور پلے کے مطابق کھیل کی منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے۔ نئے اور پرانے گیند کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔
فاسٹ اور سپنرز کا درست استعمال کھیل کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ الغرض اب پاور پلے کھیل پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ دوسری طرف قومی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بالر محمد عامر ٹی ٹونٹی کرکٹ میں پاور پلے کے دوران کفایتی بولنگ میں سرفہرست آ گئے ہیں۔ 2016ء سے اب تک کھیلے جانے والے میچز میں پاکستانی پیسر نے 5.31 فی اوور دیتے ہوئے 8 وکٹ لئے ہیں۔