اسلام آباد: ( دنیا نیوز) ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس میں پولیس نے مبینہ ملزم فیصل آباد سے گرفتار کر لیا جبکہ مقتولہ کا جسد خاکی چترال پہنچا دیا گیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم عمر حیات کا مقتولہ ثنا یوسف کے ساتھ رابطہ تھا اور وہ خود بھی ٹک ٹاکر ہے، مقدمے کے متن کے مطابق ملزم پیر کی شام تقریباً 5 بجے ثنا کے گھر داخل ہوا اور فائرنگ کر کے موقع سے فرار ہو گیا۔
قتل کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ سنبل میں مقتولہ کی والدہ کی مدعیت میں درج کیا گیا، ملزم کی فائرنگ سے ثنا کے سینے میں دو گولیاں لگیں، انہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئیں۔
حکام کے مطابق پولیس نے مقتولہ ثنا یوسف اور ملزم عمر حیات کے موبائل فونز تحویل میں لے لیے ہیں جن کا فرانزک کروایا جائے گا، موبائل فونز کی سی ڈی آر کے حصول کیلئے بھی رجوع کر لیا گیا، گرفتار ملزم عمر حیات سے برآمد اسلحے کا بھی فرانزک کروایا جائے گا۔
ادھر وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے ایکس پر ٹویٹ کرتے ہوئے ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کے ملزم کو 20 گھنٹے میں گرفتار کرنے پر اسلام آباد پولیس کو شاباش دی ہے۔
قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی چیئرپرسن ام لیلیٰ نے نوجوان ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کو اس کے گھر میں گھس کر قتل کیے جانا ناقابل قبول ہے۔
ملزم ٹریس کرنے کیلئے 113 کیمروں سے مدد لی: آئی جی اسلام آباد
دریں اثناء آئی جی اسلام آباد پولیس علی ناصر رضوی نے بتایا ہے کہ یہ اندھا قتل تھا، قاتل نے ثنا کا موبائل غائب کر دیا تھا، کوئی اور رنگ دینے کی کوشش کی گئی، اس چیلنج کو اسلام آباد پولیس نے پروفیشل انداز میں قبول کیا اور 20 گھنٹے میں ملزم پکڑ لیا۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم فیصل آباد کا 22 سالہ لڑکا ہے، گرفتاری کے لیے اسلام آباد میں 3، فیصل آباد میں 3 اور جڑانوالہ میں 2 چھاپے مارے تھے، ہماری ٹیموں نے ڈیجیٹل سرویلنس پر کام کیا، ملزم کو ٹریس کرنے کیلئے 113کیمروں کی مدد لی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پورے اسلام آباد کی پانچوں ڈویژن کی ٹیکنیّکل ٹیموں کو اکٹھا کیا گیا، سیف سٹی کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ کیمروں کی بھی مدد لی گئی، سیلولر ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا گیا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور 37 کے قریب لوگوں سے تحقیقات کر کے ملزم کی گرفتاری کے لیے 7 ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔