موسیقی کا مستقبل تابناک، صدارتی ایوارڈ میرٹ پر ہوتا تو مل جاتا، رفاقت علی خان

Last Updated On 17 April,2018 05:38 pm

لاہور : (روزنامہ دنیا) سوشل میڈیا نوجوان گلوکاروں کی پروموشن کابہترین ذریعہ ہے، بطور موسیقار اور نغمہ نگاراپنی خدمات پیش کرنا چاہتا ہوں، بہت سے نئے فنکارمجھ سے سیکھنے کے خواہشمند ہیں، کلاسیکی موسیقی انفرادی طور پر ترقی نہیں کر سکتی، گلوکار کی دنیا فورم میں گفتگو۔

شام چوراسی گھرانے کے معروف گلوکار استاد رفاقت علی خان نے کہا ہے کہ کوئی سنگر سفارش کے بغیر کارپوریٹ سیکٹرمیں داخل نہیں ہو سکتا، پاکستانی قوالی کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی، سوشل میڈیا راتوں رات سٹار بنا دیتا ہے، کلاسیکی موسیقی انفرادی طور پر ترقی نہیں کرسکتی، بطور موسیقار اور نغمہ نگار اپنی خدمات پیش کرنا چاہتا ہوں، صدارتی ایوارڈ میرٹ پر ہوتا تو مل جاتا۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے دنیا فورم میں کیا۔ ان کا کہنا تھا پاکستان میں موسیقی کا مستقبل تابناک ہے۔ پاکستانی فنکاروں نے بالی ووڈ سے لیکر ہالی ووڈ تک اپنے فن کا سکہ جمایا، خاص طور پر قوالی اور غزل کو پوری دنیا میں سراہا جاتا ہے۔ میں خدا کا شکر گزارہوں کہ میری قوالی تو کجا من کجا کو دنیا بھر میں پسند کیا گیا ، پاکستان میں وہی فنکار خوشحال ہے جو کار پوریٹ سیکٹر کی آنکھ کاتارہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ نغمات کے ویڈیوز بنا کر ہٹ ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ہے، کارپوریٹ سیکٹر میں ٹیلنٹڈ فنکار کو بھی سفارش کے بغیر دوسری بار موقع نہیں ملتا، آج کے زمانے میں سوشل میڈیا نوجوان گلوکاروں کی پروموشن کا بہترین ذریعہ ہے جسکے ذر یعے وہ راتوں رات سٹار بھی بن سکتے ہیں انہیں کسی کا انتظار کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے خود کوششیں کرنی چاہئیں۔

ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ کلاسیکی موسیقی کی ترویج انفرادی طور پر نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کے لئے سرکاری و ثقافتی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مختلف ممالک میں ثقافتی طائفے بھجوائے جائیں لیکن میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھنا نہایت ضروری ہے، ثقافتی اداروں کی روایت رہی ہے کہ وہ زیادہ ترسفارشی فنکاروں کو بیرون ملک لیکر جاتے رہے ہیں۔ فنکار اپنے ملک کا سفیر ہوتا ہے لہٰذا فنکاروں کو چاہیے کہ وہ جہاں بھی جائیں ملکی وقار کاخیال رکھیں، پاکستان میں جب حالات بہتر ہونگے تو فنون لطیفہ کی ترقی بھی ہو گی۔

رفاقت علی خان کا یہ بھی کہنا تھا ماضی کے نغمات اس لئے مقبول ہوتے تھے کیونکہ اس دورمیں ٹیم ورک ہوتا تھا، اس میں نغمہ نگار، سنگیت کار اور گلوکارمیں ہم آہنگی اور انکی مشترکہ کاوش ہوتی تھی ۔انہوں نے کہا میں نے اپنے کیریئرمیں زیادہ تر لائیو پرفارمنس پیش کی تاہم فلمی صنعت کی تنزلی کے باعث فلموں میں جگہ نہ بن پائی لیکن میری خواہش ہے کہ میں دھنیں تخلیق کروں اور گیت نگاری کے ذریعے اپنی خدمات پیش کروں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے نئے فنکار مجھ سے سیکھنے کے خواہشمند ہیں تاہم ابھی میرے لیے وقت نکالنا مشکل ہے، میری خواہش ہے کہ میں نئی نسل کوموسیقی کی تعلیم دوں، مجھے خدانے یہ صلاحیت بخشی ہے کہ میں جسے سکھائوں اسے پرفارمر بنا سکتا ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا صدارتی ایوارڈ کیلئے میرٹ کو ترجیح نہیں دی جاتی یہ اگر میرٹ پر ملتے تو مجھے بھی مل چکا ہوتا۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ بعد از مرگ صدارتی ایوارڈز بند کر کے فنکاروں کو انکی زندگی میں یہ دینے کاسلسلہ شروع کیا جائے۔