عالمی انعام یافتہ موسیقار یووان شنکر راجہ کے قبول اسلام کی سچی کہانی

Last Updated On 05 July,2020 06:35 pm

ممبئی: (دنیا میگزین) یووان شنکر راجہ کا کہنا ہے کہ میں نے دنیا کے زہریلے ترین کیڑوں مکوڑوں، سانپوں اور بچھوؤں سمیت ہر ایک کے خلاف اللہ تعالیٰ کو اپنا ساتھی بنا لیا ہے، اب مجھے کسی کا کوئی ڈر نہیں ہے۔

اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’’میری ماں بیمار تھی، میں ہسپتال میں ان کے بیڈ کے کنارے بیٹھا تھا۔ کمزور اور بیمار سا ہاتھ میری طاقتور مٹھی میں تھا۔ بہت مطمئن تھا کہ میں ماں کو مرنے سے روک لوں گا۔ ابھی یہ سوچ آئی ہی تھی کہ اسی لمحے ماں بے دم ہوگئیں۔ چونک کر ان کا چہرہ دیکھا، کوئی جنبش نہ تھی۔ رگ ٹٹولنے کی کوشش کی، مگر جسم ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ گھبراہٹ کے عالم ہسپتال کے کمرے میں چاروں طرف دیکھا، کرسی سے اٹھا، کھڑکی اور دروازے کو گھورا۔ کیا چیز تھی جو ماں کے جسم سے نکل گئی تھی۔ کمرے میں ایسے گھوما جیسے جانے سے روک لوں گا۔ کچھ نہ کر سکا، مجبوری اور بے بسی کے عالم میں مردہ ماں کے سرہانے لگ کر دیر تک آنسو بھرتا رہا، ماں نے واپس آنا تھا نہ آئی‘‘۔

یووان شنکر راجہ نے کہا کہ عین اسی وقت سعودی عرب میں مقیم ایک دوست کی یاد آئی۔ وہ مسلمان تھا اور کئی بار اللہ تعالیٰ کی طاقت اور بڑائی بیان کر چکا تھا۔ میں نے اسے فون گھمایا اور ماں کی موت سے آگاہ کیا۔ میرے دوست نے اسلام کو سمجھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’موت اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ روحیں اللہ کی طرف سے آتی ہیں اور وہیں واپس چلی جاتی ہیں۔ تمہارے تمام سوالوں کا جواب قرآن مجید میں مل جائے گا‘۔

میں تیزی سے اٹھا۔ میرا گھر میری منزل تھی۔ اس روز منظر ہی کچھ اور تھا۔ عجیب سی بے چینی تھی، کچھ کچھ خوف بھی طاری تھا۔ گھر میں دوست کی دی ہوئی جائے نماز اور قرآن پاک کو تلاش کیا۔ نہا دھو کر جائے نماز پر بیٹھ گیا۔ صرف ایک ہی جملہ منہ سے نکلتا رہا۔

یا اللہ مجھے معاف کر دے
یا اللہ مجھے معاف کر دے
یا اللہ مجھے معاف کر دے

ان کا کہنا تھا کہ گناہوں کی معافی کا طلب گار ہونے کے بعد اٹھا۔ قرآن پاک کھولا، پڑھنے کی کوشش کی، ترجمہ سمجھنے میں دیر نہ لگی۔ قرآن پاک کا ایک ایک لفظ بھاری لگا۔ میں شاید اٹھا نہ سکوں۔ صراط مستقیم شاید میرے بس میں نہ ہو۔ لیکن پتا نہیں کہاں سے مجھ میں طاقت عود کر آئی۔ میں نے اسی لمحے اسلام لانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ دن اور آج کا دن، اسلام ہی میری زندگی کا مرکز ہے۔ میں قبول اسلام کے بعد سے بہت خوش ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ نے وفا دار بیوی اور چاند سا بیٹا عطا کیا ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ روح اور موت کیا ہوتی ہے؟ میں جانتا نہ تھا ،ہندو مت میں موت کا تصورواضح تصور نہیں ہے، انسان کیسے پیدا ہوتاہے، کیسے مرتا ہے، میرے سابقہ مذہب نے مجھے کبھی نہیں بتایا۔

انڈٰین موسیقار نے کہا کہ 2011ء میں دل کے دورے سے ان کی اچانک موت ہو گئی۔ ہمارا خاندان بہت بڑا تھا لیکن انہوں نے سب کو جوڑ رکھا تھا۔ ہم سب ایک ہیں، اس کے پیچھے میری ماں کے سوا کوئی نہیں۔ مجھے یہ ماننے میں بہت دیر لگی کہ میری ماں مر چکی ہے۔ میں کئی برس تک انہیں پاس ہی محسوس کرتا رہا۔

یووان شنکر راجہ کا کہنا تھا کہ 2013ء تک میرے آنسو تھمتے ہی نہ تھے۔ آنسوئوں کی لڑی بہتی رہتی تھی۔ میں نے لڑکپن میں بھی بہت کام کیا لیکن ان کی موت کے بعد سے کسی بات میں دل لگتا تھا نہ توجہ مرکوز ہوتی تھی۔ ہر سوچ ماں پر آ کر رک جاتی۔ وہی مجھے ہر کام کی تحریک دیتی تھیں۔ میرا اندر کام کرنے کا جنون بیدار کرتی تھیں۔ میں ان کا لاڈلا بیٹا تھا۔ وہ میرے لئے بہت دعائیں کیا کرتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ میں ایک باغ ہوں جو دوسروں کو پھل دیتا ہے۔ ان کی نظر میں میں ایک ایسا انسان تھا جو معاشرے میں بدلاؤ لانے کی کوشش میں خود کہیں کھو گیا ہے۔ خود کو بھول چکا ہے۔ وہ جانتی تھیں کہ مجھے سب سے پیار ہے،میں بھی دوسروں میں پیار بانٹتا ہوں۔

یووان شنکر راجہ نے بتایا کہ میرے والد کٹر ہندو ہیں۔ میری ماں بھی ہندومت سے تعلق رکھتی تھیں لیکن میری سوچ دونوں سے ہی الگ تھی۔ میں سوچتا تھا کہ کوئی کوئی سپر طاقت ہے جس نے دنیا بنائی اور اب اسے قائم رکھا ہوا ہے۔ تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ مجھے ہمیشہ سے خدا کی تلاش تھی۔ میں یہ بھی سوچتا تھا کہ بھلا خدا کسی شکل میں کیسے ہو سکتا ہے، یعنی بت کیسے خدا بن سکتا ہے؟ جسے خود انسان نے بنایا وہ کیسے انسان کا خالق بن سکتا ہے؟

انہوں نے تسلیم کیا کہ میری سوچ کیسے یہ راز پایا؟ یہ میری ماں کی موت کا وقت تھا جس نے میرے اندر کی تلاش کو پورا کر دیا۔ میں کسی کام کی غرض سے ممبئی آیا ہوا تھا۔ جب چنائے واپس پہنچا تو میری ماں بری طرح کھانس رہی تھی۔ میں انہیں کار میں ہسپتال لے گیا، بہن بھی ساتھ تھی۔

وہ کہتا ہے کہ میں نے نام نہیں بدلا، ہندو نام سے بے چینی ہو رہی ہے۔ میں اپنا نام جلد ہی بدل لوں گا ۔ فوری تبدیلی سے شہریت کا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس نے 31 اگست 1979ء کو چنائے (تامل ناڈو )کے امیر برہمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔

اس کا خاندان پنیپورم (Pannipuram) سے تعلق رکھتا ہے۔ زندگی بھرپور تو ہونا ہی تھی۔ باپ کا مزاج ہی اور تھا۔ بلی راستہ کاٹ لے تو گھر میں پجاری ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ گلاس ٹوٹنے پر بھی ’’پراتنا‘‘ کی محفل جمتی۔ یہ منظر بچپن ہی سے شنکر کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے۔ برہمن سوچ کے ساتھ پیدا ہونے کے باوجود اس من میں برہمن سماج کے حوالے سے کئی سوال اٹھتے جن کا کبھی جواب نہ مل سکا۔ انسان کون کون پیدا کرتا ہے؟ انسان مرنے کے بعد روحیں کہاں جاتی ہیں۔ مردے کو جلانے سے کیا مقاصد حاصل ہوتا ہے؟ راکھ پانی میں بہانے سے کیا ہوتا ہے؟ ہندومت اسے کبھی مطمئن نہ کر سکا۔

1996ء تک تامل فلمی دنیا میں اس کا طوطی بولتا تھا۔ یہ منزل اس نے صرف 17 برسوں میں حاصل کی۔ اس نے کم عمری میں جو نام کمایا وہ شاید ہی کسی اور کو نصیب ہوا ہے۔ 16 برس کی عمر میں اس نے فلم ’’ارون دھان‘‘ میں میوزک سے دنیا میں دھوم مچا دی۔

اے آر رحمن کے ساتھ ’’راجہ نٹور لال ‘‘ کا میوزک دینے والوں میں وہ بھی شامل ہے۔ 23 برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے وہ 100 فلموں میں میوزک دے چکا تھا۔ 2001ء کے بعدسے فلم ساز اس کے پیچھے ہیں اور وہ آگے آگے۔ مانگ میں وہی سب کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہ قبرص کے عالمی فلمی میلے میں 2009ء میں ایوارڈ حاصل کرنے والا وہ واحد ہندوستانی موسیقار ہے۔

وہ میوزک رائٹر بھی ہے اورسانگ رائٹر بھی، فلم کمپوزر بھی ہے اور انسٹرومنٹل بھی۔ آرکسٹرا اس سے اچھا شاید ہی کوئی بجا سکے۔ گٹار پر اسے ملکہ حاصل ہے۔ وہ ریکارڈ پرڈیوسر بھی بے مثال ہے اور فلم پروڈیوسر میں بھی اس کا ثانی نہیں۔

روایتی تامل موسیقی اور شاعری کو جب وہ نصرت فتح علی خان کے سٹائل میں مغربی انداز میں شائقین کے سامنے رکھتا تو موسیقی اور شاعری فلم کی کامیابی کی ضمانت بن جاتی۔ وہ نوجوانی میں تامل فلموں میں ری مکسنگ کا بانی بن بیٹھا۔

صرف 34 سال کی عمر میں اس نے تامل فلموں کے دو سب سے بڑے انعامات کئی مرتبہ اپنے نام کئے۔دو فلم فیئر ایوارڈ ااور چار وجے ایوارڈز حاصل کرنے والا وہ واحد موسیقار ہے۔ اپنے مایہ ناز کام کی وجہ سے وہ ’’یوتھ آئیکون‘‘ کے لقب سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

راجہ نے پہلی شادی اپنی فین سجایا چندرن سے 25 برس کی عمر میں کی۔ سجایا خود بھی موسیقار تھی اور لندن میں مقیم تھی۔ لندن میں دونوں 2002ء میں ایک شو میں ملے اور پھر وہ ایک دوسرے کی پسند بن گئے۔

اس خفیہ شادی کا اعلان 21 مارچ 2005ء کو چنائے کے مئیر ہال میں شادی کی تقریب منعقد کر کے کیا گیا۔ دوستی تین سال چلی لیکن شادی صرف تین ماہ چلی۔

علیحدگی کی وجہ ’’ناقابل اصلاح اختلافات بتائے گئے‘‘۔ دوسری شادی 30 برس کی عمر میں شلپا سے کی۔ یکم ستمبر 2011ء کو دونوں آندھرا پردیش میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔

یہ شادی بھی نہ چل سکی۔ وہ خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہا تھا۔ اس لئے مسلمان لڑکی زعفرون نزار سے 2014ء میں تیسری شادی کی۔ اللہ نے 2016ء میں چاند سی بیٹی عطا کی۔

تحریر: انجنیئر رحمیٰ فیصل
 

Advertisement