لاہور: (ویب ڈیسک) بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ نے ایک مرتبہ پھر پرانے موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کرنے والے ملک میں خانہ جنگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ہم میں سے 20 کروڑ لوگ اتنی آسانی سے فنا ہونے والے نہیں ہیں۔ اگر نسل کشی کی کوشش کی گئی تو ہم مزاحمت کرتے ہوئے لڑیں گے۔
ان خیالات کا اظہار بالی وڈ کے سینئر اداکار نے مشہور صحافی کرن تھاپر کو ایک انٹرویو کے دوران کیا۔
یاد رہے کہ تین سال قبل بھی نصیرالدین شاہ نے ملک میں بڑھتی مذہبی منافرت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ زہر پورے ملک میں پھیل چکا ہے اور اس کے جلد قابو میں آنے کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں‘۔ اس کے ساتھ انھوں نے اپیل کی تھی کہ وہ ’موجودہ ماحول سے خوف نہ کھائیں بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔
دی وائر کے صحافی کرن تھاپر کے ساتھ نئے انٹرویو میں نصیر الدین شاہ نے ہریدوار میں مذہبی اجتماع میں جو مسلمان مخالف بیان دیے گئے اس بارے میں تفصیل سے بات کی ہے۔
مذہبی اجتماع سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں نصیر الدین شاہ نے کہاکہ اگر بی جے پی کی حمایت یافتہ ہندو انتہا پسندوں کو پتا ہے کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں، تو حیران ہوں۔ کیونکہ ایسے لوگ خانہ جنگی کی اپیل کر رہے ہیں۔ ہم میں سے 20 کروڑ لوگ اتنی آسانی سے فنا ہونے والے نہیں ہیں۔ ہم 20 کروڑ لوگ لڑیں گے۔ ہم پر تنقید کرنے والوں کو بتا دوں ہم یہاں پیدا ہوئے۔ ہمارے خاندان اور کئی نسلیں یہیں رہیں اور اسی مٹی میں مل گئیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسی مہم شروع ہوئی تو سخت مزاحمت ہوگی اور لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑے گا۔ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا جا رہا ہے لیکن مسلمان ہار نہیں مانیں گے۔ مسلمانوں کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ہمیں اپنا گھر بچانا ہے، ہمیں اپنے خاندان کو بچانا ہے، ہمیں بچوں کو بچانا ہے۔
بھارتی اداکار نے مزید کہا کہ بڑھتی مذہنی منافرت پر وزیراعظم نریندرا مودی کی خاموشی سے لگتا ہے کہ انہیں حالات کی کوئی پروا نہیں ہے۔مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے کی کوششیں سرکاری سطح سے ہو رہی ہیں، یہ مسلمانوں کو غیر محفوظ محسوس کرانے کی منظم کوشش ہے۔ حکمران جماعت کے لیے علیحدگی پسندی پالیسی بن چکی ہے۔ میں جاننے کے لیے متجسس تھا کہ جنھوں نے مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسایا، ان کا کیا ہو گا لیکن سچ تو یہ ہے کہ کچھ نہیں ہوا۔
نصیر الدین شاہ نے کہا کہ وہ حکومت کے رویے پر حیران نہیں ہیں۔ یہ مایوس کن ہے لیکن کم و بیش یہ وہی ہے جس کی ہمیں توقع تھی لیکن جس طرح سے چیزیں سامنے آ رہی ہیں وہ ہمارے خدشات سے بھی بدتر ہیں۔ ایسی اشتعال انگیزیوں پر ہمارا رہنما خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔