لاہور: (ویب ڈیسک) 2016ء کے امریکی الیکشن میں جعلی خبروں کے ذریعے الیکشن پر اثر انداز ہونے کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی جاتی رہیں، امریکی تحقیقاتی ادارے کہتے رہے کہ ان جعلی خبروں کے پیچھے روس ہے۔
تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں جعلی خبریں درد سربنی ہوئی ہیں، وہیں پر کچھ ممالک کی طرف سے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں، چین سے پھیلنے والے کرونا وائرس کے باعث جعلی خبریں چلنے پر ہنگری، تھائی لینڈ، ملائیشیا، اٹلی سمیت دیگر ممالک نے کارروائی کرتے ہوئے متعدد لوگوں کو پکڑا اور ان کو سزا بھی سنائی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’سائینٹیفک امریکن‘ کے مطابق 2020ء کے الیکشن میں جعلی خبریں پھیلانے والی ویب سائٹس اثر انداز نہیں ہونگی کیونکہ اس بار انتظامیہ نے جعلی خبروں کے خوف پر قابو پانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق جعلی خبریں پھیلانے والی ویب سائٹ کے حامی افراد کی تعداد صرف 20 فیصد ہے۔ زیادہ تر علم کے متلاشی ہوتے ہیں، انہی میں بہت سارے لوگ ایسی ویب سائٹس پر پہنچ جاتے ہیں جہاں جعلی خبریں گردش کرتی ہیں، سوشل میڈیا بھی اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
2020ء کے دوران الیکشن میں سب سے موضوع ترین بحث جعلی خبروں کی روک تھام ہے کیونکہ 2016ء کے دوران انتخابات میں حکام کی طرف سے کہا گیا تھا کہ روس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوانے کے لیے سوشل میڈیا کی ویب سائٹس فیس بک، ٹویٹر سمیت دیگر پر جعلی خبروں کا سہارا لیا۔ ان خبروں کو پھیلانے کے لیے متعدد ویب سائٹس بھی بنائی گئیں۔
پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر ایملی تھورسن کا کہنا ہے کہ میرے لیے کوئی حیرانگی کی بات نہیں کہ جعلی خبروں کی ویب سائٹس اثر انداز ہو سکتی ہیں، کیونکہ اب رائے عامہ بنانے کے لیے مزید ذرائع سامنے آئے ہیں جو ایک اچھا اضافہ ہے۔
امریکا میں نیہان اور ان کے دوست کہتے ہیں کہ بہت سارے لوگ خبروں کی تلاش کے لیے کچھ ایسی ویب سائٹس پر چلے جاتے ہیں جہاں پر جعلی خبروں کی بھرمار ہوتی ہے ایسی ویب سائٹس صرف ٹریفک کے لیے اس طرح کی خبروں کو اپنی ویب سائٹس کی زینت بناتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک، ان کی زیر ملکیت واٹس ایپ، ٹویٹر، یوٹیوب سمیت دیگر ایپس نے بھی اس پر سخت کارروائی کی ہے اور مستقبل میں کسی بھی قسم کے تنازع سے بچنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
نیہان کا مزید کہنا ہے کہ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ یہ ویب سائٹس خبریں لگاتی کیا ہیں لیکن کچھ خبروں کے جھوٹ کی وجہ سے پورے معاشرے پر اثر پڑتا ہے، لوگوں کا زیادہ انحصار سیاسی خبروں پر ہوتا ہے، ان خبروں کو دیکھنے کے بعد لوگوں کا سیاست سے دل اُچاٹ جاتا ہے۔