لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں ایک بیماری زبان زدعام ہے، کرونا وائرس نے ہر طرف خوف پھیلایا ہوا ہے وہیں پر اس بیماری سے متعلق پھیلتی جعلی خبریں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق چین سے پھیلنے والے کرونا وائرس دنیا کے 20 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے، اس بیماری سے اب تک تقریباً 2500 افراد کے قریب زندگی کی بازی ہار گئے ہیں، اس بیماری کے باعث متعدد ممالک میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں، جہاں پر احتیاطی تدابیر کی جا رہی ہیں وہیں پر ایک اور مسئلہ نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔
مختلف ممالک میں کرونا وائرس نے اپنے پنجھے گاڑھے ہیں وہیں پر جعلی خبروں کے ذریعے مزید خوف پھیلایا جا رہا ہے، ان جعلی خبروں کے باعث مزید خوف پھیل رہا ہے، تاہم کچھ ممالک نے اس پر بر وقت کارروائی کر کے قابو پانے کی کوشش کی ہے تاہم یہ مسئلہ تیزی سے پروان چڑھتا جا رہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق چین سے پھیلنے والا کرونا وائرس سے زیادہ بڑا مسئلہ اس سے متعلق جعلی خبریں ہیں، جن پر کنٹرول کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ اس وقت کرونا وائرس سے متعلق سب سے زیادہ جعلی خبریں سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک پر پھیلائی جا رہی ہیں، جس کے صارفین کی تعداد اربوں میں ہے۔ وہیں پر کچھ لوگ ’یوٹیوب‘ پر بھی جعلی ویڈیوز اپ لوڈ کر کے خوف پھیلا رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق ان خبروں پر کو روکنے کے لیے بر وقت کارروائی نہ کی گئی تو مستقبل میں مزید بڑا بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ موبائل ٹیکنالوجی میں فیس بک اور یو ٹیوب سرفہرست کی ویب سائٹس ہیں، فائیو جی ٹیکنالوجی کے باعث دونوں سائٹس پر انٹرنیٹ کی سہولیات مزید بہتر ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ چین سے پھیلنے والے کرونا وائرس پر جعلی خبریں پھیلانے پر ملائیشیا، تھائی لینڈ اور ہنگری میں متعدد لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سنگا پور میں سخت قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق فیس بک پر زیادہ آسانی سے خبریں پھیلنے کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی اس ویب سائٹ پر ’ہزاروں گروپس‘ بنے ہوئے ہیں جہاں پر لوگ ایک خبر شیئر کرتے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو جاتی ہے اور لوگ ان خبروں پر یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
چند روز قبل اٹلی کے وزیراعظم جوزیپی کونتے کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس سے متعلق ملک میں پھیلنے والی جعلی خبروں کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
اٹلی کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں جعلی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں، ان خبروں کی وجہ سے بہت سارے مسائل سر اٹھا رہے ہیں، ان جعلی خبروں کو روکنے کے لیے ہمیں جلد سے جلد اقدامات کرنا ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب یہ وقت ایکشن لینے کا ہے، ہمیں ہر حال میں ان جعلی خبروں کو پھیلنے سے روکنا ہو گا، کرونا وائرس سے متعلق ہمارے کوئی سکول بند نہیں ہو رہے ہیں اور نہ ہی کوئی خوراک کی قلت ہے۔
یاد رہے کہ گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر نے کرونا وائرس کے حوالے سے غلط اطلاعات کے پھیلاؤ کی روک تھام کے ساتھ صارفین کو مددگار اور مستند ذرائع سے تفصیلات کی فراہم کے لیے مختلف اقدامات کرنا شروع کردیئے ہیں۔
فیس بک کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ کرونا وائرس کے حوالے سے غلط معلومات کو فلیگ اور سائٹ سے ہٹانے کے منصوبے پر کام کررہی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہ اقدام کمپنی کے موجودہ قواعد کے مطابق ہے جس میں انسان کو نقصان پہنچانے والے مواد کے پیشِ نظر اس طرح کے مواد کو ہٹایا جاتا ہے۔جس طرح فیس بُک نے سیاست اور دیگر امور کے بارے میں غلط معلومات ہٹانے کے حوالے سے ماضی میں اقدامات کیے۔
حکام کا کہنا تھا کہ کمپنی کرونا وائرس کے بارے میں فیس بک پر شیئر کیے جانے والے غلط مواد کو ہٹائے گی۔ توجہ ایسی پوسٹوں پر مرکوز ہے جو کرونا وائرس کے علاج کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور اس وائرس سے نمٹنے کے لیے جھوٹی تجاویز پوسٹ کر رہے ہیں۔
گوگل کی جانب سے کرونا وائرس سرچز کے لیے ایک ایس او ایس الرٹ بنایا گیا جبکہ ٹوئٹر نے کہا کہ وہ اس حوالے سے سرچ کرنے والے افراد کو بیماری کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے آفیشل چینیلز کی جانے لے کر جائے گی۔