اسلام آباد: (اے پی پی) مغربی میڈیا افغان حکومت کی نااہلی چھپانے کیلئے پاکستان مخالف پراپیگنڈہ کر رہا ہے۔
افغان حکومت کے خاتمہ اور طالبان کے قبضہ کے بعد مغربی میڈیا پاکستان پر الزامات عائد کر رہا ہے تاکہ غیرملکی افواج کی ناکامیوں اور اشرف غنی، افغان حکومت کی نااہلی اور اشرف غنی کے فرار کی پردہ پوشی کی جا سکے ۔
بدقسمتی سے افغان حکومت اپنے زیر تسلسل علاقوں میں بھی سکیورٹی کی صورتحال پر قابو نہ پاسکی جبکہ افغان حکومت کے پاس تین لاکھ افراد پر مشتمل فوج تھی جس کو غیر ملکی امداد اور فوجیوں کی تربیت کی سہولیات بھی حاصل تھیں ۔
سیاسی تجزیہ کار شاہد رضا نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت کی نا اہلی اور افغان عوام کی جانب سے طالبان کے خلاف لڑنے کی افغان فوج کی عدم دلچسپی کو چھپانے کیلئے پاکستان پر الزام عائد کرنا غیر منصفانہ عمل ہے۔
حال ہی میں شائع ہونے والے مضمون میں برطانوی نشریاتی ادارے نے دعویٰ کیا کہ طالبان کی زیادہ تر تعداد پاکستانی مدرسوں سے تعلق رکھتی ہے ، جو حقائق کے برعکس ہے ۔ مختلف افغان گروپس پر مشتمل طالبان کا تعلق افغانستان سے ہے اور ان کو افغانستان نے کارروائیوں کے دوران مقامی حمایت حاصل تھی۔
انہوں نے کہا کہ طالبان خود مختار گروپ ہے جو اپنے اخراجات کا خود بندوبست کرتا ہے اور ان کے اپنے مالی ذرائع ہیں ۔ شاھد رضا نے برطانوی نشریاتی ادارے کو مزید بتایا کہ طالبان پر پاکستان کے کنٹرول اور ان کا پاکستانی حمایت یافتہ ہونے کے دعویٰ سراسر غلط بیانی ہے ۔
شاہد رضا نے کہا کہ درحقیقت کابل کی حکومت اور افغانستان کی سیاسی اشرافیہ اپنے وسیع تر مفادات میں اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے پاکستان پر الزام لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔
فوکس نیوز کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں امریکا کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے واضح کیا تھا کہ 20سال قبل امریکا کی مالی مدد اور حمایت سے مصروف عمل طالبان کے حوالہ سے پاکستان کو پراکسی وار میں شامل کیا گیا۔
طالبان کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کی بجائے برطانوی میڈیا کو طالبان کے حقیقی خالق امریکا کے کردار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ مغربی میڈیا نے دہشتگردی کی جنگ کے خلاف پاکستان کی قربانیوں سے ہمیشہ چشم پوشی کی ہے اور دوسری جانب افغان جنگ کے حقائق معلوم کرنے کی کوشش میں بھی ناکام رہا ہے۔
شاہد رضا نے مغربی میڈیا کے پراپیگنڈہ پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید کہا کہ برطانوی آرمی کے جنگی ہیرو میجر (ر) رابرٹ گیلیمور نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں طالبان کی حمایت کے حوالہ سے پاکستان کے کردار کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں آئی ایس آئی کی موجودگی ثابت نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ برطانوی نشریاتی ادارہ افغانستان میں پاکستان مخالف تحریک طالبان پاکستان کی موجودگی پر بھی روشنی ڈالے جو سرحد پار اکثر کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے پاکستان مخالف ہزاروں جنگجو افغانستان سے کارروائیاں کر رہے ہیں جو سرحد پار کارروائیوں میں ملوث ہیں ۔ صرف ٹی ٹی پی ہی نہیں بلکہ بلوچستان لبریشن آرمی جیسے دیگر گروپس کیلئے بھی افغانستان ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں پناہ گزین جنگجوئوں کی تعداد 2500سے 6ہزار کے درمیان ہے ۔ اقوام متحدہ کے ایک رکن ملک نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی جولائی اور اکتوبر 2020ء کے دوران سرحد پار سو سے زیادہ کارروائیوں میں ملوث ہے۔
شاہد رضا نے کہا کہ مغربی میڈیا کو بالخصوص را اور دیگر بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں، دہشتگردوں کی تربیت اور ٹی ٹی پی کی معاونت میں ملوث ہونے کے کردار پر بھی رپورٹنگ کرے ۔ افغانستان میں امن عمل سے ناخوش بھارت ،امریکا طالبان امن معاہدے کی اہمیت کو بھی کم کرنے کا خواہشمند ہے تاکہ پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں کیلئے ٹی ٹی پی کا ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال جاری رکھ سکے۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں حکومت پاکستان کی جانب سے عالمی برداری کو پیش کئے گئے شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں چین کے مفادات پر بھی حملوں میں ملوث ہے کیونکہ بھارت پاکستان اور چین کو اپنا مشترکہ دشمن سمجھتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ نومبر 2020ء میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پاکستان کے خلاف طالبان کی مالی مدد اسلحہ فراہم کرنے اور ان کی تربیت کے حوالہ سے بھارت کے کردار کے بارے میں ثبوت پیش کئے تھے۔
شاہد رضا نے کہا کہ پاکستان کو عدم مستحکم کرنے کے مقصد کے تحت افغان اور بھارتی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے گٹھ جوڑ کیا اور ٹی ٹی پی کی فنڈنگ کا عمل جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت ہے کہ پاکستان، افغان حکومت سے افغانستان کے کنار اور نورستان کے شمال مشرقی صوبوں میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمہ پر زور دے۔