لاہور: (ویب ڈیسک) ایک جدید طبی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بعض پھلوں اور سبزیوں کے اندرDNA حفاظتی عامل پایا جاتا ہے۔ انگریزی ویب سائٹ Care2 کے مطابق یہ ایجنٹ وٹامن C نہیں بلکہ حرارت کا حسّاس ہے۔ اس لیے کہ تجربات کے دوران وٹامن سی کا ڈی این اے پر کوئی اثر نہیں پایا گیا۔ ڈی این اے حفاظتی عامل کا نام carotenoid beta-cryptoxanthin ہے جو بنیادی طور پر تُرش غذاؤں میں پایا جاتا ہے۔
تحقیق کے دوران بعض لوگوں کو مسمی کا جوس پلایا گیا اور اس کے دو گھنٹے بعد ان کے جسم سے تھوڑا خون لیا گیا۔ معائنے کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ ایک کیمیائی آکسڈائزنگ مواد کے ساتھ DNA کے ضرر میں کمی واقع ہوئی۔ دوسری جانب جن لوگوں نے مسمی کے مصنوعی ذائقے والا جوس پیا تھا ان کو کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہ ہوا۔
ان نتائج سے یہ سوال سامنے آیا ہے کہ آیا جو لوگ زیادہ پھل کھاتے ہیں اُن کو ڈی این اے کے کم نقصان کا سامنا ہوتا ہے ؟ جی ہاں ۔۔۔ یہ سائنسی حقیقت درست ہے بالخصوص خواتین کے اندر۔ تازہ پھل اور سبزیاں کھانے سے سرطان میں مبتلا ہونے کی اوسط کم ہو جاتی ہے۔
صرف تُرش غذائیں ہی چھاتی کے سرطان سے متاثر ہونے کے امکانات کو 10% تک کم کر دیتی ہیں۔
اگرچہ فوڈ سپلمینٹ کا ڈی این اے کی درستی میں کوئی کردار نہیں ہوتا تاہم سپلمنٹری ڈائیٹ جس میں گاجر شامل ہو اس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔
یہ بات تو دریافت ہوچکی ہے کہ مسمی کے جوس کا استعمال بچپن میں خون کے سرطان سے محفوظ رکھنے میں مددگار ہوتا ہے تاہم یہ بات ثابت نہ ہو سکی کہ یہ جلد کے سرطان سے محفوظ رکھنے میں بھی کار گر ہے۔ یہاں تک بعض طبی تحقیقوں کے مطابق موسمی کے جوس کا بے تحاشہ استعمال جلد کے سرطان کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔