بیجنگ: (ویب ڈیسک) چین میں نمونیہ کے مرض میں مبتلا درجنوں افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، اس وائرس کے سبب نمونیہ اور دیگر امراض میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔
چین کے سرکاری ٹی وی کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ کرونا وائرس کے سبب ہی نمونیہ اور دیگر امراض میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تاہم چینی محکمہ صحت کے حکام نے رپورٹ کی فوری طور پر تصدیق نہیں کی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ووہان میونسپل ہیلتھ کمیشن کا کہنا ہے کہ وسطی چین میں گزشتہ اتوار تک 59 افراد سانس کی مختلف بیماریوں کے سبب زیر علاج تھے۔ سات افراد کی حالت تشویشناک ہے جب کہ باقی افراد کی حالت بہتر ہے۔
سی سی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق لیبارٹری ماہرین نے 59 میں سے 15 مریضوں میں نول کرونا وائرس کی تصدیق کی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل اس حوالے سے مزید تحقیق کی جانی چاہیے۔
ٹی وی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کھانسی یا چھینک کے ذریعے یا کسی متاثرہ شخص کو چھونے سے پھیلتا ہے۔ کرونا وائرس کی موجودگی کے سبب مریض کو یا تو ٹھنڈ لگ جاتی ہے یا پھر وہ سارس اور مرس نامی سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اس طرح کے وائرس لوگوں میں عام ہیں لیکن چمگادڑ، اُونٹ اور دیگر جانوروں کے ذریعے بھی یہ وائرس انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔
محکمہ صحت نے نمونیہ کے پھیلنے کی ممکنہ وجہ سارس یا مرس کو قرار نہیں دیا بلکہ حکام نے اس امکان کو یکسر مسترد کردیا ہے۔
دوسری جانب چین کے علاوہ ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان میں بھی بیماری کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔
ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان میں بھی اسی بیماری کے ممکنہ معاملات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں ووہان سے حال ہی میں آنے والے مسافر بھی شامل ہیں۔ ہانگ کانگ میں اب تک 38 مریض سامنے آ چکے ہیں۔ افراد میں بخار، سانس کے انفیکشن یا نمونیہ کی علامات پائی گئی ہیں۔
نئی بیماریوں نے سارس کے دوبارہ پھیلنے کے خدشات میں اضافہ کردیا ہے چین میں 2002ء کے آخری مہینوں میں سارس کا مرض پھیلا تھا جس سے پڑوسی ممالک کے باشندے بھی نہ بچ سکے اور مجموعی طور پر ان مریضوں کی تعداد آٹھ ہزار تک جا پہنچی تھی جبکہ ان میں سے 800 افراد انتقال کر گئے تھے۔
چین میں 2004 کے بعد سے کوئی کیس سامنے نہیں آیا جب کہ اُردن اور سعودی عرب میں 2012 میں یہ مرض پہلی مرتبہ سامنے آیا تھا۔ اس سال وہاں 2500 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جن میں سے متعدد افراد ہلاک بھی ہوئے لیکن 2012 کے بعد سے ان دونوں ممالک میں کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔