بیجنگ: (ویب ڈیسک) پاکستان سمیت دنیا بھر میں ویڈیوز ایپ ٹک ٹاک نے اپنی دھاک بیٹھائی ہوئی ہے، جنوبی ایشیا میں اس ایپ کا استعمال روز بروز بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری طرف امریکی سرکار بھی اس ایپ کو ملک کے خلاف سمجھتی ہے، تاہم حیران کن طور پر بہت سارے لوگوں کو معلوم نہیں ہو گا کہ ٹک ٹاک ایپ چینی شہریوں کے لیے کمائی کا ذریعہ بن گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین میں مشہور سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کا مقامی ورژن ڈوون کسانوں کو غربت سے نکالنے کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ چین کے کاشتکاروں کے لیے اپنی فصلوں کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر چڑھانا فروخت کا معروف طریقہ کار بن گیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق ایسا ہی اتفاق چینی کسان ما گونگزو کے ساتھ ہوا جو شہد کا کاروبار کرتے ہیں اور اپنے فارم پر پیدا ہونے والے شہد کی ویڈیوز بنا کر ڈوون پر ڈالتے ہیں۔ چین میں ٹک ٹاک کے مقامی ورژن ڈوون کے 40 کروڑ فالوورز ہیں۔ ما گونگزو کو ڈوون پر سات لاکھ سے زیادہ صارفین فالو کر رہے ہیں۔
2015 میں 31 سالہ ما گونگزو نے چین کے ایک پہاڑی صوبے میں شہد کی پیداوار شروع کی جس کی فروخت سے وہ سالانہ ایک لاکھ 42 ہزار ڈالر کما لیتے تھے۔
منافع کی شرح بڑھانے کے لیے ما گونگزو کے دوستوں نے ان کو سوشل میڈیا ایپ ڈوون استعمال کرنے کا مشورہ دیا، جس کے بعد ان کا سالانہ منافع چار لاکھ سے تجاوز کر گیا۔
اے ایف پی کے مطابق ما گونگزو کا کہنا تھا کہ 2018ء میں انہوں نے روز مرہ زندگی کی ویڈیوز بنا کر صارفین کے ساتھ شیئر کرنا شروع کیں جس سے لوگوں نے ان کے کاروبار میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔
ما گونگزو شہد کے علاوہ خشک شکرکندی اور شکر کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ ماگونگزو کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے شہد خریدنے کے لیے مجھ سے رابطہ کرنا شروع کیا۔ سکول میں ان بچوں کو بہت زیادہ سراہتا تھا جو اپنا جیب خرچ لاتے تھے، کیونکہ میرے پاس کبھی بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔
یاد رہے کہ چین کے دیہی علاقوں میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کے تناسب میں کمی آئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1978 میں 700 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے تھے، جو 2018 میں کم ہو کر 16.6 ملین ہو گئی ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا 2020 تک غربت کے خاتمے کا ارادہ ہے۔