لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان، بھارت اور چین سمیت عالمی دنیا میں سموگ اپنے پنجھے گاڑھ چکی ہے، گزشتہ چند روز کے دوران پاکستان میں بھی خطرناک حد تک اس کے اثرات دیکھنے میں آئے تھے، اسی نئی دہلی بھی ان دنوں خطرناک سموگ کا سامنا کر رہا ہے جبکہ چین کے داالحکومت بیجنگ میں بھی سموگ کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں،تاہم چین میں دلچسپ انداز میں سموگ پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
اٹلی سے تعلق رکھنے والے آرکیٹکٹ اسٹیفانو نے چین میں عمومی جنگلات اگلا کر سموگ سے پر قابو پانے کا حل نکالا ہے، یہ جنگلات کثیر المنزلہ عمارتوں کی بیرونی سطح پر بالخصوص بالکونیوں میں اگائے جا رہے ہیں، اس کے نتیجے میں اوپر سے نیچے تک عمارت ہریالی میں ڈھک جاتی ہے۔
آرکیٹکٹ کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف مزید آکسیجن پیدا ہو گی بلکہ عمارتوں کے اندر سموگ اور آلودگی کا داخلہ بھی کم ہو جائے گا، جبکہ دیکھنے میں یہ عمارتیں خوبصورت ہوںگی، اطالوی رکیٹکٹ میلان میں ایسے عمودی جنگلات قائم کر چکے ہیں، چین میں انہوں نے مشرقی ننجنگ سے یہ جنگلات اُگانے کا آغاز کیا ہے۔
منصوبے کے تحت 23 ہزار سکوائر میٹر کی سطح رکھنے والی 200 میٹر بلند عمارت پر 600 بڑے درخت، 200 درمیانے سائز کے درخت اور 2500 جھاڑی نما چھوٹے درخت لگائے جا رہے ہیں، اس کے ساتھ 108 میٹر بلند ٹاورز پر بھی درخت لگائے جائیں گے۔ اس چھوٹے ٹاور میں حیات ہوٹل قائم ہو گا، یہ منصوبہ 2018ء میں مکمل ہونا تھا، تاہم بعض وجوہات کی بناء پر تاخیر کا شکار ہے۔
ایک اور انوکھا منصوبہ 2016ء میں سامنے آیا تھا، جب امریکا کی ایم آئی ٹی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایروناٹیکل انجینئر موشے الامارو نے جیٹ انجن کے ذریعے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی آلودہ ہوا بالائی فضائی میں پھینکنے کا خیال پیش کیا تاکہ زمین کے قریب کی ہوا صاف ہو سکے اور لوگوں کو سموگ سے نجات مل جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جیٹ انجنز کو کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے پاس لگایا جائے، ان کے چلنے کے نتیجے میں ایک ہائی چمنی قائم ہو جائے گی اور آلودہ ذرات اُڑ کر بالائی فضا میں پہنچ جائیں گے، تاہم ایم آئی ٹی کے سائنسدان کی اس تجویز پر کبھی عمل نہیں ہوا۔
چین میں ہوا صاف کرنے کے دیو قامت پلانٹ کا ذکر پہلے آ چکا ہے، ہوا صاف کرنے کے لیے آلات کئی ممالک میں گھروں میں استعمال ہو رہے ہیں، لاہور میں متمول طبقے کے کئی افراد نے اپنے گھر میں ایئر پیوریفائرز لگا رکھے ہیں، تاکہ اہل خانہ سموگ کے مضر اثرات سے محفوظ رہیں، بیشتر ممالک میں سموگ کا تعلق گاڑیوں کے دھویں سے جوڑا جاتا ہے لہٰذا بہتر معیار کا یا متبادل ایندھن استعمال کرنا بھی ایک حل ہے۔
جامشورو یونیورسٹی کے شعبہ ٹیلی کمیونیکیشن انجینئرنگ کے ماہرین نے کچھ برس قبل ایک تحقیق میں یہ خیال پیش کیا تھا کہ سموگ اور دھند کے دوران گاڑیوں کو ٹکرانے سے بچانے کا نظام ہونا چاہیے، anti- fog system for high speed vehicles using wi-fi کے عنوان سے تحقیق یونیورسٹی کے ماہرین نے ثابت کیا کہ وائی فائی کے ذریعے گاڑیوں کے درمیان ریڈار نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔
یہ تکنیک بظاہر کم لاگت والی معلوم ہوتی ہے، ماہرین نے جو حل پیش کیا ہے یہ ہے کہ ہر گاڑی میں سامنے کی اطراف الٹرا سونک سینسر لگے ہوں گے، جو آگے جانے والی گاڑی سے فاصلہ بتائیں گے، اور اگر گاڑی رکی ہو گی تو اس کا بھی انداز ہو سکے گا، اس کے علاوہ رکی ہوئی گاڑی کا وائی فائی ایکسس پوائنٹ پر چلا جائے گا۔
یعنی یہ گاڑی وائی فائی ہاٹ سپاٹ یا راؤٹر کی طرح سگنل پھینکنا شروع کر دے گی۔ چلنے والی گاڑیوں کا وائی وائی سنگلز موصول کرنے کے لیے آن ہو گا، بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے موبائل فونز کا وائی فائی سگنلز موصول کرنے کے لیے آن ہوتا ہے اور جیسے اسے کوئی اوپن یا منظور شدہ وائی فائی ہاٹ سپاٹ ملتا ہے تو منسلک ہو جاتا ہے۔
چلتی ہوئی گاڑی کا وائی وائی جیسے ہی کنکٹ ہو گا تو انداز ہو جائے گا کہ سامنے کوئی گاڑی رکی ہوئی ہے، گاڑی رکھنے کی صورت میں اس میں بزر بھی بجانا شروع ہو جائے گا۔ تاکہ دوسرے ڈرائیور خبردار ہو جائیں، اس نظام پر عملدرآمد کے لیے یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک موبائل اپلی کیشن بھی ڈیزائن کی ہے۔