انقرہ: (ویب ڈیسک) آپ جان کر حیران ہوں گے کہ دنیا میں پہلے پہل ویکسین کے طریقہ کار کا استعمال خلافتِ عثمانیہ کے دور میں شروع ہوا۔ تاہم یہ عمل ابتدائی شکل میں تھا جو ترکی میں برطانیہ کے سفیر کی اہلیہ لیڈی میری ورٹلی مانٹیگیو کے ذریعے برطانیہ پہنچا، جہاں معالج ایڈورڈ جینر نے چیچک سے بچاؤ کی پہلی ویکسین تیار کر کے دنیا کو موذی مرض سے نجات دلائی۔
امریکی میڈیا کے مطابق کہانی کی ابتدا لیڈی مانٹیگیو کے خط سے ہوتی ہے جو انہوں نے 1717ء میں استنبول سے لندن میں اپنے دوست کو لکھا۔ خط میں انہوں نے بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ شاہی طبیب لوگوں کے جسم پر کٹ لگا کر ایک خاص چیز لگاتے ہیں جس سے وہ چیچک سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔
یو ایس لائبریری آف میڈیسن اور بیلر یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کی ویب سائٹس کے مطابق لیڈی مانٹیگیو کے شوہر ایڈورڈ مانٹیگیو 1717 سے 1721ء تک ترکی میں برطانیہ کے سفیر تھے۔ انکی اہلیہ میری مانٹیگیو کو چیچک کے علاج میں گہری دلچسپی تھی کیونکہ وہ موذی مرض کے تلخ تجربات اور مشاہدات سے گزر چکی تھیں۔
برطانیہ کے امیر کبیر گھرانے کی یہ خاتون بمشکل اس مہلک وبا سے اپنی جان بچا پائی تھیں، لیکن یہ مرض ان کے جسم پر کئی بدنما داغ چھوڑ گیا تھا۔ ان کے کئی قریبی عزیز اور دوست چیچک سے ہلاک ہو چکے تھے، جس سے ان کے دل میں خوف بیٹھ گیا تھا اور وہ اپنے بچوں کو اس وبا سے محفوظ رکھنا چاہتی تھیں۔
یہ وہ دور تھا جب چیچک کی وبا یورپ سمیت کئی ملکوں میں تباہیاں پھیلا رہی تھی۔ 18 ویں صدی میں ہر سال صرف یورپ میں چار لاکھ کے لگ بھگ افراد اس وبا سے ہلاک ہو جاتے تھے جب کہ صحت یاب ہونے والوں میں سے ایک تہائی اپنی بینائی کھو بیٹھتےتھے اور باقی ماندہ کے چہروں اور جسم پر بدنما داغ پڑ جاتے تھے۔ اس دور میں ہلاکت خیز وبا کا کوئی علاج دستیاب نہیں تھا۔
لیڈی میری ورٹلی اپنے شوہر ایڈورڈ مانٹیگیو کے ہمراہ جب 1717 میں استنبول پہنچیں تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ترکی میں چیچک کی وبا کنٹرول میں تھی کیونکہ وہاں لوگوں کا ایک خاص طریقے سے علاج کیا جاتا تھا جس کے بعد انہیں چیچک نہیں ہوتی تھی۔
لیڈی مانٹیگیو کو اس طریقہ کار پر اس قدر بھروسا ہوا کہ انہوں نے سفارت خانے کے معالج چارلس میڈلینڈ کے ساتھ اپنے پانچ سالہ بیٹے کو چیچک سے بچاؤ کا کٹ لگوانے کے لیے شاہی طبیب کے پاس بھجوایا۔
1721 میں جب سفارتی مدت ختم ہونے کے بعد مانٹیگیو خاندان وطن واپس لوٹا تو ڈاکٹر میڈلینڈ بھی ان کے ساتھ تھا۔ اس نے تاج برطانیہ کے معالجوں کو اس طریقہ علاج پر قائل کرنے کے لیے مانٹیگیو کی چار سالہ بیٹی کو ان کے سامنے کٹ لگا کر ایک دوا لگائی جو وہ ترکی سے اپنے ساتھ لایا تھا۔
مانٹیگیو سے پہلے بھی ترکی کا سفر کرنے والے تاجر چیچک کے علاج کی خبریں لاتے تھے اور ان کے توسط سے یورپ والوں کو معلوم تھا کہ کوہ قاف اور وسطی ایشیائی روسی ریاستوں سے عثمانی سلطنت کے محل کے لیے لائی جانے والی خوبصورت لڑکیوں کو بھی اسی طریقے سے چیچک سے محفوظ کیا جاتا تھا تاکہ شاہی محل میں رہنے والے چیچک جیسے کسی مرض کا شکار نہ ہوں۔ ان میں سے کئی کنیزیں بعد ازاں طاقت ور ملکائیں بنیں اور امور سلطنت میں ان کا گہرا عمل دخل رہا۔
دنیا کی پہلی ویکسین
ترکی میں چیچک کے علاج سے متعلق معلومات کے باوجود برطانیہ کے شاہی معالج اس طریقہ علاج کو ٹوٹکا قرار دے کر نظرانداز کرتے رہے، لیکن جب ایک برطانوی سفیر کے خاندان نے اپنی بیٹی کو اس تجربے کے لیے پیش کیا تو انہوں نے اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا اور تاج برطانیہ نے ڈاکٹر میڈ لینڈ کو چھ قیدیوں پر یہ تجربہ کرنے کا لائسنس دے دیا۔ انہیں کٹ لگا کر دوا دی گئی اور کچھ عرصے کے بعد انہیں چیچک زدہ ماحول میں رکھا گیا، لیکن وہ محفوظ رہے۔
شاہی خاندان اس تجربے سے اتنا متاثر ہوا کہ پرنسز آف ویلز کی دو بیٹیوں کو بھی یہ دوا دی گئی جس سے برطانیہ میں ویکسین کی تیاری کی جانب سنجیدہ کوششوں کی ابتدا ہوئی اور بالآخر 1796 میں ڈاکٹر ایڈورڈ جنز نے چیچک زدہ گائے سے حاصل کردہ مواد سے دنیا کی پہلی ویکسین متعارف کرائی جس نے آنے والے برسوں میں دنیا سے اس موذی وبا کا خاتمہ کر دیا۔
چیچک کی مخصوص دوا کیا تھی؟
یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ اس دور میں ترکی میں جب کبھی چیچک کی وبا پھوٹتی تھی تو عموماً گوالے اس سے محفوظ رہتے تھے۔ ترک طبیبوں نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ گائے کو بھی ایک مخصوص قسم کی چیچک لاحق ہوتی ہے جس میں ان کے جسم پر پھنسی نما دانے نکل آتے ہیں جن میں پیپ بھری ہوتی ہے۔ گائیوں کی دیکھ بھال کے دوران اکثر اوقات گوالے کا ہاتھ یا جسم کا کوئی حصہ گائے کو چھو جاتا ہے۔ اگر وہاں چیچک کا کوئی دانہ ہو تو اس کا مواد گوالے کے جسم پر لگ جاتا ہے۔ اور اگر اس جگہ کوئی خراش یا کٹ وغیرہ ہو تو جراثیم انسانی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔
ترک طبیبوں کو معلوم ہوا کہ کٹ یا خراش کے راستے متاثرہ گائے کی پیپ انسانی جسم میں داخل ہونے سے چیچک سے تحفظ مل جاتا ہے۔ انہوں نے اس مشاہدے کو اپنے علاج کا حصہ بنایا اور تندرست لوگوں کے جسم پر نشتر سے چھوٹا سا چیرہ لگا کر اس پر گائے کا چیچک زدہ مواد لگانے لگے۔ یہ ویکسین کی ابتدائی شکل تھی۔
چیچک زدہ گائے سے چیچک کا تریاق
یہ کہاوت تو آپ نے سنی ہی ہو گی کہ زہر کو زہر مارتا ہے۔ ہزاروں برس پہلے کا انسان بھی اس حقیقت سے آگاہ تھا۔ ایسے شواہد ملتے ہیں کہ تقریباً ہزار سال پہلے چین کے بعض حصوں میں لوگ سانپ کے زہر کے چند قطرے اپنے حلق میں ٹپکا لیتے تھے جس سے وہ سانپ کے کاٹنے سے ہلاک ہونے سے محفوظ ہو جاتے تھے۔ اسی طرح چیچک سے بچنے کے لیے گائے کا چیچک زدہ مواد بھی اس مرض کے خلاف تریاق کا کام کرتا تھا۔
ہمارے جسمانی مدافعتی نظام میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ جب کسی مرض کے جراثیم یا وائرس کا حملہ ہوتا ہے تو ہمارا مدافعتی نظام اس کے خلاف لڑنے کے لیے ایک فوج تیار کرتا ہے جسے طب کی زبان میں اینٹی باڈیز کہا جاتا ہے۔ ویکسین بھی اسی اصول پر کام کرتی ہے۔ وہ کسی خاص وبا کے خطرے سے ہمارے قدرتی مدافعتی نظام کو آگاہ کرتی ہے جس سے مقابلے کے لیے وہ تیار ہو جاتا ہے۔
وبائیں پھیلانے والے وائرس،جراثیموں سے ویکسین کی تیاری
1796 میں چیچک کی ویکسین بننے کے بعد دوسری وباؤں کی ویکسینز بنانے کا راستہ کھل گیا۔ اور آنے والے برسوں میں اسی طریقہ کار کے تحت کئی وبائی امراض کی ویکسینز بنائی گئیں جن میں بطور خاص بچوں کے امراض بشمول خسرہ، خناق، کالی کھانسی، پولیو اور تشنج شامل ہیں۔ ان ویکسینز سے ہر سال لاکھوں زندگیاں بچانے میں مدد مل رہی ہے۔
امراض کی روک تھام اور بچاؤ کے امریکی ادارے سی ڈی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت امریکا میں دو درجن سے زیادہ وبائی امراض سے پچاؤ کی ویکسینز استعمال کی جا رہی ہیں۔
1950 کے عشرے تک ویکسین بنانے کے لیے وبا کے وائرس یا جراثیم استعمال کیے جاتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ان کی لیبارٹری میں افزائش کی جاتی تھی اور کمزور یا مردہ وائرس یا اس کا کوئی حصہ ویکسین میں استعمال کیا جاتا تھا۔ پھر سائنس کی ترقی نے ویکسین بنانے کے لیے نئی راہیں کھول دیں۔
اب جینیاتی طریقے سے بھی ویکسین بنائی جا رہی ہے جس کی تازہ ترین مثال کووڈ-19 کی ویکسین ہے۔ تیزی سے پھیلنے والی اس موذی وبا کے خلاف اس وقت تین اقسام کی ویکسینز استعمال کی جا رہی ہیں، جو روایتی، ڈی این اے اور جینیاتی کوڈ کے طریقوں سے تیار کی گئی ہیں۔
جینیاتی کوڈ کی ویکسین ایم آر این اے کہلاتی ہے۔ اس میں انسان کے مدافعتی نظام کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ایک خاص بیرونی دشمن جسم میں داخل ہو گیا ہے۔ مدافعتی نظام اس کے خلاف نہ صرف اینٹی باڈٰیز تیار کرتا ہے بلکہ اپنی یاداشت میں اسے محفوظ کر لیتا ہے تاکہ مستقبل میں جب کبھی کورونا وائرس حملہ کرے تو وہ اسے شناخت کر کے فوری مقابلہ شروع کر دے۔ اگرچہ نئی ٹیکنیک کے تحت تیار ہونے والی ویکسینز کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے، تاہم ابھی ان پر تحقیق و تجربات جاری ہیں۔ کسی ویکیسن کی تیاری کے بعد اس کا استعمال شروع ہونے میں دس سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے۔ اس دوران یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ وہ انسانی استعمال کے لیے کتنی محفوظ، مؤثر اور دیرپا ہے۔
ویکسین کی تیاری کے تین اہم مراحل
لیبارٹری میں تیاری اور ابتدائی تجزیوں اور تجربات سے گزرنے کے بعد ویکسین کو تین مرحلوں میں انسانوں پر آزمایا جاتا ہے۔ پہلا مرحلہ رضاکاروں کے ایک چھوٹے گروپ پر مشتمل ہوتا ہے جس میں ویکسین کے انسانوں کے لیے محفوظ ہونے اور اینٹی باڈیز پیدا کرنے کی صلاحیت کو جانچا جاتا ہے۔
دوسرے مرحلے میں کئی سو رضاکار شامل کیے جاتے ہیں اور یہ تعین کیا جاتا ہے کہ ویکسین کے مؤثر ہونے کے لیے اس کی کتنی مقدار اور خوراکوں کی ضرورت ہو گی اور وہ کتنی مدت تک مؤثر رہے گی۔
تیسرے مرحلے میں ہزاروں رضاکاروں کو ویکسین دے کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مختلف گروپس کے لوگوں پر اس کے مؤثر ہونے کی صلاحیت کیا ہے۔
کورونا وائرس کو سامنے آئے ایک سال سے کچھ ہی زیادہ عرصہ ہوا ہے، جب کہ اس سے بچاؤ کی ویکسینز کا استعمال شروع ہو گیا ہے۔ یہ اقدام ہنگامی صورت حال کے پیش نظر کیا گیا ہے تاکہ اس کے تیز تر پھیلاؤ اور ہلاکتوں کو قابو میں لایا جا سکے۔ مختلف ملکوں میں کووڈ-19 کی کئی ویکسینز تیار کی گئی ہیں۔
اگرچہ امریکہ میں سی ڈی سی جیسا ادارہ عندیہ دے رہا ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد کورونا وبا سے پہلے کی زندگی کی طرف لوٹا جا سکتا ہے لیکن عاملی ادارہ صحت ابھی خبردار کر رہا ہے کہ احتیاط روا رکھنا ابھی ضروری ہے۔
ریسرچر اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی وبا کے خلاف کم ترین مدت میں جو ویکسین آئی ہے، وہ کورونا ویکسین ہی ہے لیکن ابھی کئی ممالک میں یہ ویکسین اپنے تجرباتی مراحل میں ہے۔ یوں اس کے بارے میں مکمل معلومات اور ڈیٹا مرتب ہونے میں مزید وقت لگے گا۔