نواز شریف، شہباز شریف اور کیپٹن صفدر کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں محمود اخترنقوی کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ درخواستگزار نے اپنی درخواست میں موقف اپنایا کہ پاناما فیصلے کے بعد نواز شریف نے جلوس نکالا اور عدلیہ مخالف تقاریر کیں۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا نواز شریف نے تمام باتیں جے آئی ٹی کے خلاف کیں جو بیان عدالت کے خلاف آرہے ہیں وہ ہمارے پاس موجود ہیں، عدالت کے خلاف بیانات کا معاملہ مناسب وقت پر اٹھائیں گے۔
عدالت نے خواجہ سعد رفیق کے خلاف محمود اختر نقوی کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بظاہر توہین عدالت کی کوئی بات نہیں نظر آ رہی ، عدلیہ کو غیرجانبدار ہونا چاہیے جن معاملات پر نوٹس لینا تھا لے چکے ہیں۔ البتہ محمود اختر نقوی ہی کی ایک دوسری درخواست جو انہوں نے رحمان ملک کیخلاف دائر کی تھی اس پر نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ رحمان ملک کو دہری شہریت کیس میں تنخواہیں اور مراعات واپس کرنا تھی جو انہوں نے واپس نہیں کیں۔
اس موقع پر عدالت میں موجود سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے وکیل حشمت حبیب نے کہا عمران خان نے بھی توہین عدالت کی اس کیس کو چلانا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے کو تمام درخواستوں سے الگ کر کے مقرر کریں گے۔ چیف جسٹس نے سابق چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری کے خلاف درخواست خارج کرتے ہوئے کہا سینیٹ کی اندرونی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتے۔