چیف جسٹس کی سربراہی میں ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل ازخود نوٹس کی سماعت تین رکنی بینچ نے کی۔ سپریم کورٹ نے پی بی اے کی فریق بننے کی درخواست خارج کر دی۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا پہلے جرم ثابت ہو جائے پھر جرم کے پیسے کا بھی دیکھیں گئے۔ پی بی اے کے وکیل نے کہا جرائم کا پیسہ میڈیا میں لگایا جا رہا ہے، کمپنی کا کل اثاثہ 70 لاکھ ہے لیکں تنخواہیں کروڑوں میں دیتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا پی بی اے کا معاملہ سے کوئی تعلق نہیں بنتا، ایف بی آر سے ایگزیکٹ کمپنی کا آڈٹ کروالیں گے۔ پی بی اے کے وکیل نے کہا میڈیا انڈسٹری اسٹیک پر ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا میڈیا کو جب بھی کوئی پوچھے تو اسٹیک پر آجاتا ہے کل شاہد مسعود نے بھی کہا میڈیا سٹیک پر ہے، ضرورت پڑی تو پیمرا کو فریق بنائیں گے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا پاکستان کا نام بدنام نہیں ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا انشااللہ پاکستان کی بدنامی نہیں ہونے دیں گے، کیوں نہ بول کا آڈٹ کروا لیں ؟ ایف بی آر سے ٹیکس ریٹرن منگوا لیتے ہیں ، پاکستان کی عزت کے سوا باقی تمام چیزیں ثانی ہیں، صرف پاکستان کی عزت مقدم ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا بول کے ملازمین کو تنخواہیں ادا کی گئیں یا نہیں ؟۔
شعیب شیخ کے وکیل نے عدالت کو بتایا ملازمین کی تنخواہیں بنتی ہی نہیں ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا بول رقم سپریم کورٹ میں جمع کروا دے، ادائیگیوں کا مجموعی دعوی کتنا ہے، ہمیں پہلے یہ معلوم ہو کہ ملازمین کی ادائیگیوں کی کل کتنی رقم بنتی ہے، ہمیں یہ بتا دیں کیا ہم ریکوری کروا سکتے ہیں۔