لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں حکمران مخالف اتحاد کی جیت کو ایک بڑا سیاسی اپ سیٹ قرار دیا جا سکتا ہے جس سے یقیناً اپوزیشن جماعتوں کو حوصلہ ملا ہے اور حکمران اور ان کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے سینیٹ میں ملنے والی اس جیت کو بلوچستان کی جیت اور حکمران اتحاد نے اپنی اس ہار میں نادیدہ قوتوں کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے مجموعی طور پر جمہوری عمل کی تکمیل پر اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ پڑے گا کہ سینیٹ کے محاذ پر بننے والے غیر علانیہ اتحاد کا مستقبل کیا ہو گا اس کے آنے والے انتخابات پر کیا اثرات ہوں گے اور کیا سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے رجحانات کا سلسلہ آنے والے عام انتخابات تک بھی وسیع ہو گا ۔ سینیٹ کے انتخابات اور خصوصاً چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابی عمل میں یہ چیز کھل کر سامنے آئی ہے کہ اب سیاسی قوتوں کے اتحاد اور اختلاف کا انحصار نظریات ، جذبات اور خیالات پر نہیں صرف اور صرف سیاسی مفادات پر ہے اور دشمن کے دشمن بھی دوست ہوتے ہیں کے فارمولا پر گامزن ہو کر کسی کو گرایا جا سکتا ہے ، بلوچستان کے ایشو پر لڑے جانے والے اس انتخاب پر یہ امکان ضرور ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ اس سے بلوچستان کے احساس محرومی کے خاتمہ میں مدد ملے گی اور صوبہ سے پسماندگی کے خاتمہ میں کوئی کردار ادا کیا جا سکے گا کیونکہ سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن کی سیاسی قوتوں کے درمیان پل کا کردار وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے ادا کیا اس لئے اب اس عمل کے نتائج کے ذمہ داری بھی وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور متعلقہ سیاسی قوتوں کو اٹھانا ہو گی۔
البتہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے ہارس ٹریڈنگ کی خبروں اور رجحانات کی بیج کنی کی ذمہ داری بھی سیاسی قوتوں پر عائد ہوتی ہے اور ایک دوسرے پر اس حوالے سے لگائے جانے والے الزامات اور تحفظات کا دور کرنا بھی ضروری ہے ۔ اس انتخاب کے نتیجہ میں جہاں بلوچستان میں محرومی اور بلوچستان کو سینیٹ میں ایک اہم پوزیشن دینے کا سوال ہے تو یہ عنصر بظاہر تو جیت گیا ہے مگر اس نعرے کے ذریعے آصف زرداری کو براہ راست کامیابی ملی ہے کیونکہ بلوچستان میں سیاسی تبدیلی اور آزاد سینیٹرز کے چناؤ میں ان کی سرمایہ کاری بہت زیادہ تھی البتہ عمران خان کے حصہ میں براہ راست تو کامیابی نہیں آئی مگر جزوی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے اصل حریف نواز شریف کو سیاسی محاذ پر پہلی بار شکست سے دوچار کیا ہے انہیں اس میں سے کیا ملے گا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا البتہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کو ٹارگٹ کرنے والے عمران خان اب عوام کے سامنے انہیں اس طرح سے ٹارگٹ نہیں کر پائیں گے اور ان کے درمیان ہونے والا غیر اعلانیہ مفاہمتی عمل ان کے لیے عوامی سطح پر مشکل کا باعث ضرور بنے گا اور انہیں اس حوالے سے جوابدہ بھی ہونا ہو گا جہاں تک آنے والے انتخابات پر ان کے اثرات کا سوال ہے تو یہ صورتحال بہت حد تک واضح ہو گئی ہے کہ نئے جمہوری سیٹ اپ میں قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی ایک طرف نواز شریف کا سیاسی گڑھ پنجاب ہو گا تو باقی تین صوبوں کو اکٹھا کر دیا جائے گا اس کی پلاننگ ابھی سے ہو چکی ہے اور یہ وفاق کے حوالے سے کوئی اچھی صورتحال نہیں ہو گی اور نہ ہی ایسے کرنے والے مائنڈ سیٹ کو محب وطن عوام میں پسند کیا جائے گا لہذا اس صورتحال اور سینیٹ انتخابات کے نتائج کا خود نواز شریف اور ان کے اتحادیوں کو بھی ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا ہو گا کہ ان کی جانب سے اختیار کئے جانے والے بیانیہ کے اثرات ملکی مفادات، سیاسی حالات اور قومی سیاست پر کیا ہو رہے ہیں۔
خدا نہ کرے کہ سینیٹ کی قیادت کے انتخابات کے حوالہ سے ہونے والی تقسیم پاکستان کے وفاق کیلئے خطرناک نہ بن جائے لہذا قومی سیاسی جماعتوں کو صوبائی تعصبات سے بالاتر ہو کر قومی سوچ اور اپروچ کے ساتھ اپنے سیاسی حریفوں کو شکست دینے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ محلاتی سازشوں کے ذریعے چھوٹے صوبوں کی محرومی کا کارڈ کھیل کر ملک کے اندر انتشار اور خلفشار پیدا کیا جائے ، اس سلوگن کے خالق نے سیاسی انجینئرنگ کے ذریعہ نواز شریف اور ان کے اتحادیوں کی سیاست کو ایوان بالا میں شکست سے دوچار کیا ہے ، اہم ترین قانون سازی جس کا تعلق سپریم کورٹ کے اختیارات اور ملک میں احتساب کے کام میں اصلاحات اور خود آرٹیکل 62 اور 63 کے حوالے سے ممکنہ قانون سازی کے معاملے پر میاں نواز شریف اور ان کے اتحادی دفاعی پوزیشن پر چلے گئے ہیں ، نواز شریف اور ان کے اتحادی اسٹیبلشمنٹ اور مخالف سیاسی جماعتوں کا دباؤ برداشت کر کے آئندہ عام انتخابات جیت بھی جاتے ہیں تو انہیں مؤثر قانون سازی کیلئے سینیٹ میں پذیرائی نہیں مل سکے گی لہذا آئندہ انتخابات کے نتائج کو اگر سابق وزیراعظم نواز شریف اپنے حق میں لانے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو آئین کے حوالے سے دونوں ایوان ایک دوسرے سے محاذ آرائی کی کیفیت میں چلے جائیں گے ، تنازعات اور آئینی معاملات پر صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ عارضی انتظام چلانا پڑے گا ۔ جہاں تک سینیٹ کے انتخابی نتائج کا تعلق ہے تو سابق وزیراعظم نواز شریف کی مخالف قوتوں کیلئے یہ امر اطمینان کا باعث بنے گا کہ عین انتخابات سے دو ماہ پہلے نوازشریف کے دو بڑے مخالفین آصف زرداری اور عمران خان اکٹھے ہو گئے ہیں اور اس غیر علانیہ اتحاد کو سینیٹ الیکشن میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے چناؤ کے ذریعہ عملی شکل مل چکی ہے ، لہذا اب نواز شریف مخالف سیاسی قوتوں کو سیاسی میدان میں پیشقدمی کرنے کے لیے بہت بڑا اشارہ اور سازگار ماحول میسر آ چکا ہے ، سردست یہ پیش گوئی کرناتو بہت مشکل ہے کہ عوامی اور سیاسی محاذ پر دونوں جماعتیں علانیہ اتحاد کا اعلان تو نہ کر پائیں مگر اپنے اپنے حصے کا کام انہیں کرنا پڑے گا اور پھر عام انتخابات کے نتائج کے بعد قومی اسمبلی کے فلور پر بھی عین اسی طرح کی صورتحال درپیش ہو گی۔
جہاں تک سینیٹ کے انتخابات میں اپوزیشن کی کامیابی کا سوال ہے تو اس مرحلہ کو آگے کی طرف چلنا چاہیے اور حکومت مخالفین کو اب سینیٹ میں ملنے والی فتح کو آئندہ عام انتخابات میں ثابت کرنا ہے اگر یہ اتحاد ہار گیا تو قوم سوچنے پر مجبور ہو گی کہ سینیٹ انتخابات میں پولیٹیکل انجینئرنگ اور غیر فطری جوڑ توڑ کے ذریعے عوام میں پاپولر قیادت اور سوچ کو غیر جمہوری انداز میں شکست دے کر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکا گیا ہے ۔ حکومت مخالف چیئرمین منتخب ہونے پر عام انتخابات کے حوالے سے تمام قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں کیونکہ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اگر نواز شریف کے حمایت یافتہ سینیٹ پر غالب آ گئے تو عام انتخاب میں نواز شریف کی مقبولیت کے سامنے بند باندھنا ناممکن ہو جائے لہذا اس بنیاد پر عام انتخابات میں کچھ عرصے کی تاخیر نگران حکومت میں توسیع اور حلقہ بندیوں کے عمل کو جواز بنا کر غیر یقینی صورتحال پیدا کی جائے گی۔ مگرسینیٹ میں نوازشریف اور اتحادیوں کی ہار نے اب تمام خدشات ختم کر دیئے ہیں اور سینیٹ کے نتائج کا تسلسل اب یقینی بنایا جائے گا۔